آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
آئین شکنی کے مقدمے میں پرویز مشرف کی جائیدار ضبط کرنے اور گرفتاری کا حکم
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کی پاکستان میں جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو گرفتار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
عدالت نے ملزم کے وکیل کی جانب سے سکیورٹی فراہم کرنے کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے پرویز مشرف اپنے آپ کو قانون کے سامنے سرنڈر کریں اور اس کے بعد دیکھیں گے کہ کیا ملزم کی استدعا پر غور کیا جائے یا نہیں۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جمعرات کو جسٹس یحی آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز شرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کی تو وزارت داخلہ کی جانب سے سابق آرمی چیف کی ملک میں سات جائیدادوں کی تفصیلات عدالت میں پیش کی گیئں۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
وزارت داخلہ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ عدالت میں پیش کی جانے والی سات جائیدادوں میں سے چار ملزم پرویز مشرف کی ملکیت ہیں۔
عدالت نے وزار ت داخلہ کے اہلکار سے استفسار کیا کہ انھوں نے ملزم کی گرفتاری کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ملزم پرویزمشرف کے ریڈ ورانٹ بھی جاری نہیں کیے گئے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس مقدمے کے سرکاری وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت حکم دے تو ابھی ملزم کے ورانٹ گرفتاری جاری کرنے کے بارے میں کارروائی شروع کرتے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر کام کی اجازت عدالت ہی دے۔
اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا حکم نہیں دیا جبکہ ملزم نے عدالت میں حلف نامہ جمع کروایا تھا کہ عدالت جب بھی بلائے گی تو وہ پیش ہو جائیں گے۔
ملزم پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے موکل کی جائیداد کی ضبطگی کے احکامات واپس لیے جائیں جس سے عدالت نے اتفاق نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے موکل عدالت کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ پہلے انھیں سکیورٹی فراہم کی جائے۔
اختر شاہ کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر عدالت میں جب پیش ہوں تو انھیں دوبارہ ملک سے باہر جانے سے نہ روکا جائے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ملزم خود کو قانون کے سامنے پیش نہیں کرتا اس وقت تک عدالت انھیں کوئی ضمانت نہیں دے سکتی۔
اس مقدمے کے سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ایک طرف سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو انھیں اجازت نہیں دی جا رہی جبکہ دوسری طرف عدالتی مفرور پیش ہو کر دوبارہ باہر جانے کی باتیں کر رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی رولنگ موجود ہے کہ جب تک ملزم اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش نہیں کرتا اس وقت تک اس کو کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔
عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت 21 مارچ تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ اسلام آ باد کی مقامی عدالت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو حبس بےجا میں رکھنے کے مقدمے میں بھی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔