مسلم لیگ ن ختم تو ہو سکتی ہے لیکن نواز شریف سے الگ نہیں

،تصویر کا ذریعہEPA
- مصنف, فراز ہاشمی
- عہدہ, بی بی سی اردو سروس، لندن
سپریم کورٹ سے نااہلی تاحیات ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ہونا تو باقی ہے لیکن مسلم لیگ ن نے نواز شریف کو تاحیات قائد منتخب کر کے اعلٰیٰ عدلیہ کے فیصلہ کو پھر مسترد کر دیا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائد قائد ہوتا ہے اور اسے کسی عدالت سے صادق اور امین کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مسلم لیگ ن کی مجلس عاملہ کے فیصلے کے قانونی اور اخلاقی پہلوؤں میں جائے بغیر یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ نواز شریف کو اگر تاحیات کے لاحقے کے ساتھ قائد مقرر نہ بھی کیا جاتا تب بھی وہ ہی پارٹی کے روح رواں ہیں اور رہیں گے کیونکہ یہ جماعت ہی ان کی ہے اور ان ہی کے نام سے موسوم ہے۔
قائد بن کر نواز شریف پارٹی کے اہم فیصلے تو کرتے رہیں گے اور پارٹی ان کی توثیق کرتی رہے گی لیکن عملی سیاست میں نواز شریف کے دوبارہ آنے کے بارے میں فی الوقت یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ابھی آئین کی شق 62 کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین ہونا باقی ہے اور اگر تاحیات کی شرط ختم بھی ہو گئی تو بدعنوانی کے مقدمات کی تلوار تو سر پر لٹک ہی رہی ہے۔
میاں صاحب کے سیاسی مخالفین تو بڑے یقین سے کہہ رہے کہ لندن فلیٹس کی خریداری کی کوئی رسید پیش نہیں کی گئی اس لیے نواز شریف کے حق میں فیصلہ آنا ممکن نہیں ہے۔

،تصویر کا ذریعہEPA
اس صورت حال میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ پارٹی ان کے دوبارہ عملی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی راہ کس طرح ہموار کر سکتی ہے۔ پاکستان میں مروجہ آئین اور قانون میں تو ایسا کوئی صابن یا شیمپو موجود نہیں ہے کہ جس سے نہا کر میاں صاحب دوبارہ صادق اور امین ہو جائیں۔
میاں صاحب جن مسائل میں گھرے ہیں ان میں کچھ ان کی پارٹی اور خاندان کے اندرونی معاملات سے متعلق بھی ہیں۔
اسی بارے میں مزید پڑھیں!
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
شہباز شریف کو پارٹی کا مستقل بنیادوں پر سربراہ مقرر کرنے کے بجائے انھیں قائم مقام صدر منتخب کرنے کا فیصلہ بھی ان ہی اندرونی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ بلا شبہہ ’پاور پولیٹکس‘ بہت بے رحم کھیل ہے اس میں بھائی، بہن، ماں، باپ کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کی سیاست میں آج جو بدعتیں موجود ہیں ان سب کا ذمہ دار مسلم لیگ نون کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جب جمہوری روایات کی بات ہوتی ہے تو سب ہی جماعتوں کا ایک ہی حال ہے۔ یہ جماعتیں ملک میں تو جمہوری نظام دیکھنا چاہتی ہیں لیکن اپنی صفوں میں جمہوری روایات کو فروغ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

،تصویر کا ذریعہEPA
تاحیات قائد نامزد کرنے کی مثال پیپلز پارٹی قائم کر چکی ہے۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو کو جب اپنے سگے بھائی میر مرتضی بھٹو کی طرف سے خطرہ پیدا ہوا تو انھوں نے اپنی والدہ کو پارٹی سے بے دخل کر کے تاحیات چیئرپرسن بننے کا اعلان کر دیا تھا۔
مسلم لیگ ن کی اپنی تاریخ میں بھی اس طرح کی ایک اور مثال موجود ہے جب سنہ 1999 میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کر کے ان پر مقدمات بنانے شروع کیے تو مشرف سے ڈیل کر کے ملک سے باہر چلے گئے۔ لیکن جاتے جاتے مشکل حالات میں صدر تو جاوید ہاشمی کو مقرر کردیا اور خود پارٹی کے رہبر بن گئے۔
نواز شریف چاہے ڈیل کر کے باہر جائیں یا لڑنے کے لیے میدان میں کھڑے ہو جائیں۔ چاہیے رہبر ہوں یا تاحیات صدر، جب تک ان کے بیانیے کو عوام میں پذیرائی ملتی رہے گی کوئی قوت ان کو سیاست میں بے معنی نہیں کر سکتی۔ عدلیہ کا کوئی بھی فیصلہ نواز شریف کو مسلم لیگ سے علیحدہ نہیں کر سکتا۔
مسلم لیگ ن ختم تو ہو سکتی ہے لیکن نواز شریف سے الگ نہیں ہو سکتی۔










