آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
کراچی کے سیویج نظام پر چیف جسٹس کی تنبیہ
- مصنف, ریاض سہیل
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
حکومت سندھ نے اعتراف کیا ہے کہ صنعتوں کا فضلہ اور ڈرینیج کا پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر اور دریائے سندھ میں شامل ہو رہا ہے، صوبائی حکومت نے یہ آگاہی سپریم کورٹ میں تحریری رپورٹ میں دی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق کراچی کے صنعتی کارخانوں کا پانی لیاری اور ملیر ندی کے ذریعے سمندر میں خارج کیا جاتا ہے۔ نارتھ کراچی، سائیٹ ایریا، ایف بی ایریا، کورنگی اور لانڈھی کے صنعتی کارخانوں سے خارج ہونے والے پانی کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں لہذا یہ آلودہ پانی سمندر میں خارج کیا جاتا ہے۔
اسی طرح سپر ہائی وے پر واقع نوری آبادی کے کارخانوں کا پانی کوٹڑی کے کینال کے بی فیڈر میں شامل ہوجاتا ہے، یہ ہی صورتحال کوٹڑی اور حیدرآباد کے صنعتی علاقوں کی بھی ہے۔
حکومت سندھ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ صوبے میں موجود 30 سے زائد شگر ملز، درجنوں کاٹن فیکٹریوں اور بڑی فلور ملز میں بھی ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگے ہیں جس وجہ سے یہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا بھی سبب بن رہی ہیں، اس لیے شگر ملز میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے ساتھ فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کا بھی نظام لگانے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ صنعتوں کے پانی کی ٹریٹمنٹ یا صفائی کے لیے کمبائنڈ افلیوینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جائیں، اس کے لیے منصوبہ زیر تعمیر ہیں جو سنہ 2019 میں فعال ہوں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کی صنعتوں میں پانچ ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کا منصوبہ منظور کیا گیا ہے جو سنہ 2020 میں مکمل ہوگا۔ حکومت سندھ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور ٹریٹمنٹ کے لیے منصوبے بنارہی ہے جس کے لیے 400 ارب روپے کے فنڈز کی ضرورت ہے جبکہ سندھ کی ترقیاتی بجٹ 244 ارب روپے ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس موقعے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی واٹر بورڈ کے ایم ڈی ہاشم زیدی سے مخاطب ہوکر کہا کہ انھیں کوئی تاریخ دی جائے کہ کراچی میں آلودہ پانی کو صاف کرنے کا مسئلہ کب تک حل ہوجائیگا۔ سیویج کا پانی کب تک صاف کرکے سمندر میں چھوڑنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ عدالت نے انھیں ہدایت کی کہ دو ہفتوں میں مکمل تفیصلات کے ساتھ رپورٹ پیش کی جائے۔
سپریم کورٹ میں سنیچر کو کراچی کے میئر وسیم اختر بھی پیش ہوئے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں متعدد مسائل ہیں، بجلی کنڈے پر چل رہی ہے، واٹر بورڈ کا نظام خراب ہے، سارا کچرا سیوریج نظام میں شامل ہوجاتا ہے۔ برساتی اور نکاسی آب کے نالوں پر قبضے ہوچکے ہیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وسیم اختر کو مخاطب ہوکر کہا کہ اس شہر میں آپ کی حکومت زیادہ رہی ہے آپ ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے، شہر کے مسائل حل کرنے کے لیے آپ کی بھی ذمہ داری ہے۔ ماضی سے سبق سیکھیں اور مجھے مسائل کا حل بتائیں، آپ اگلے ہفتے دوبارہ آئیں گے۔
'مجھے یقین ہے کہ تین ماہ میں کراچی کے مسائل حل کرنے میں کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور ہوگی۔' وسیم اختر نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ وہ مسائل کے حل کے لیے تعاون کریں گے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک دوسری درخواست پر حکم جاری کیا ہے کہ ڈبے میں دودھ فراہم کرنے والی تمام کمپنیوں کی مصنوعات کی چیکنگ کی جائے اور اس سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے محکمہ صحت کے سیکریٹری اور ڈرگ انسپکٹر کو یہ بھی ہدایت جاری کی کہ بھینسوں سے اضافی دودھ کے حصول کے لیے لگائے جانے والی انجیکشینوں کو ضبط کیا جائے۔