بیوٹی پارلر نہیں جا سکتیں تو 'گھر پر' بلا لیں

،ویڈیو کیپشن'گھر پر' نامی ویب سائٹ سیلون سروسز بھی مہیا کر رہی ہے اور روزگار کے مواقع بھی
    • مصنف, فرحت جاوید
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

آپ نے ایسی موبائل فون ایپس کے بارے میں تو سنا ہی ہو گا اور شاید استعمال بھی کی ہوں جن کے ذریعے ٹیکسیاں، مختلف ریستورانوں کا کھانا یا پھر عام ضرورت کی اشیا صرف ایک کلِک کے ذریعے آپ کے گھر تک آ جاتی ہیں۔ سوچیے، کیا ہی اچھا ہو کہ خواتین کے لیے بیوٹی سروسز بھی گھر کے دروازے تک آ جائیں؟

لاہور میں خواتین کے ایک گروپ نے 'گھر پر' نامی ایسی ہی ایک سہولت کا آغاز کیا ہے جو سیلون سروسز بھی مہیا کر رہی ہے اور روزگار کے مواقع بھی۔

مزید پڑھیے

'گھر پر' نامی اس ویب سائیٹ کی سی ای او شمیلہ اسماعیل ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ خواتین بیوٹی پارلر جانے کی بجائے گھر سے ہی ان کی ویب سائٹ پر اپائنٹمنٹ بک کراتی ہیں اور ویب سائٹ سے وابستہ 40 بیوٹیشنز میں سے کوئی ایک مقررہ وقت پر ان کے گھر پہنچ جاتی ہے۔

یہ سروس استعمال کرنے والی ایک صارف نوین اقبال نے بتایا کہ 'گھر پر' ان کے لیے سہولت لائی ہے۔ 'میں ایک کال کرتی ہوں یا آن لائن وقت بتا دیتی ہوں اور پھر نہایت صاف ستھری سروس مجھے گھر پر ہی مل جاتی ہے۔
،تصویر کا کیپشنیہ سروس استعمال کرنے والی ایک صارف نوین اقبال نے بتایا کہ 'گھر پر' ان کے لیے سہولت لائی ہے۔ 'میں ایک کال کرتی ہوں یا آن لائن وقت بتا دیتی ہوں اور پھر نہایت صاف ستھری سروس مجھے گھر پر ہی مل جاتی ہے۔

شمیلہ کہتی ہیں کہ انھیں یہ سروس پیش کرنے کا خیال آن لائن کاروباروں کی مقبولیت کو دیکھ کر آیا۔

'جب سب کچھ آن لائن ہو رہا ہے تو بیوٹی سروسز آن لائن اور آن ڈیمانڈ کیوں نہ ہوں، بس یہی سوچ کر ہم نے اس منصوبے کا آغاز کیا کہ ہم صارفین کا رابطہ بیوٹیشنز کے ساتھ قائم کریں اور وہ ان کے گھر جا کر مطلوبہ سروس فراہم کریں جو عموما بیوٹی پارلر میں دی جاتی ہے'۔

پیشے کے لحاظ سے بیوٹیشن صوفیہ تین بچوں کی ماں اور اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس کمپنی میں کام کر کے ہر ماہ تقریباً پچاس ہزار روپے کما رہی ہیں۔

پیشے کے لحاظ سے بیوٹیشن صوفیہ تین بچوں کی ماں اور اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس کمپنی میں کام کر کے ہر ماہ تقریباً پچاس ہزار روپے کما رہی ہیں۔
،تصویر کا کیپشنپیشے کے لحاظ سے بیوٹیشن صوفیہ تین بچوں کی ماں اور اپنے گھر کی واحد کفیل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس کمپنی میں کام کر کے ہر ماہ تقریباً پچاس ہزار روپے کما رہی ہیں۔

صوفیہ نے ’گھر پر‘ کی مدد سے بیوٹیشن کورس کیا اور اب وہ اسی ویب سائٹ کے ذریعے گھر گھر جا کر خواتین کو وہ تمام سروسز فراہم کرتی ہیں جو پہلے صرف بیوٹی پارلرز میں ہی دستیاب تھیں۔

ان کے مطابق صرف دو سال پہلے شوہر کی بیماری کے باعث ان کے گھر نوبت فاقوں تک آگئی تھی اور بچوں کا سکول چھڑوانا پڑ گیا تھا لیکن اب وہ اتنا کما لیتی ہیں کہ 'بیمار شوہر کا علاج بھی ہو رہا ہے، بچے دوبارہ سکول جا رہے ہیں اور گھر کا راشن بھی پورا کر رہی ہیں'۔

شمیلہ اسماعیل کے مطابق اس وقت لاہور میں ان کی ویب سائٹ پر چھ ہزار صارفین رجسٹرڈ ہیں۔ اس ویب سائٹ کے مطابق زیادہ تر صارفین وہ ملازمت پیشہ خواتین ہیں جن کے لیے سیلون جانے کے لیے وقت نکالنا مشکل ہے، وہ مائیں ہیں جو بچوں کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں جا پاتیں اور بزرگ خواتین ہیں۔

یہ سروس استعمال کرنے والی ایک صارف نوین اقبال نے بتایا کہ 'گھر پر' ان کے لیے سہولت لائی ہے۔ 'میں ایک کال کرتی ہوں یا آن لائن وقت بتا دیتی ہوں اور پھر نہایت صاف ستھری سروس مجھے گھر پر ہی مل جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ٹریفک کا رش، کام کے اوقات اور گھر کی ذمہ داریوں سے وقت نکالنا بہت مشکل ہے، ایسی صورت میں اس قسم کی سروسز محض ایک کلِک کی دوری پر ہیں۔ اس سے بڑی آسانی کیا ہو گی!‘

اس ویب سائٹ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان کی ایک ایپ آئندہ ماہ لانچ کی جائے گی جبکہ اسی سال دیگر شہروں میں بھی اس سروس کا آغاز کیا جائے گا۔

'گھر پر' نامی اس پراجیکٹ کے تحت پہلے خواتین کو تقریباً تین ماہ کی مفت تربیت دی جاتی ہے، جس کے بعد انھیں ان کی مہارت کے شعبے سے متعلقہ سامان 'آسان اقساط' پر فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسی ویب سائٹ کے ذریعے صارفین انھی تربیت یافتہ بیوٹیشنز سے رابطہ کرتی ہیں۔

شمیلہ نے یہ بھی بتایا کہ ان کی ویب سائٹ پر صارفین کی رجسٹریشن کے وقت نادرا سے باقاعدہ تصدیق کی جاتی ہے اور اس کے بعد ہی بیوٹیشن کو کسی صارف کے گھر بھیجا جاتا ہے۔

شمیلہ کہتی ہیں کہ انھیں یہ سروس پیش کرنے کا خیال آن لائن کاروباروں کی مقبولیت کو دیکھ کر آیا۔
،تصویر کا کیپشنشمیلہ کہتی ہیں کہ انھیں یہ سروس پیش کرنے کا خیال آن لائن کاروباروں کی مقبولیت کو دیکھ کر آیا۔

شمیلہ کہتی ہیں کہ اس منصوبے پر کام کرنے کا مقصد کمزور طبقے کی ان خواتین کو مضبوط بنانا ہے جو مناسب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنا کاروبار شروع نہیں کر سکتیں یا مقامی سیلونز میں چند ہزار روپے کی تنخواہ پر دن بھر محنت کرتی رہتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'ہمیں اصل خوشی اس وقت ملتی ہے جب یہ بیوٹیشنز جو پہلے بہت سے پریشانیوں میں گِھری تھیں، اب ہمیں بتاتی ہیں کہ وہ موٹرسائیکل یا گاڑی خریدنے کی تیاری کر رہی ہیں یا گھر کی تعمیر کے لیے پیسے جمع کر رہی ہیں یا ان کے بچے کے کالج یا یونیورسٹی کی فیس جمع ہو گئی ہے۔‘