نااہل شخص کی پارٹی صدارت، نواز شریف کو نوٹس جاری

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کی سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہونے والے سابق وزیر اعظم نوازشریف کے اپنی سیاسی جماعت کے صدر بننے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔
عدالت نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں پر وفاق اور فریقین کو نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں۔
پاکستانی پارلیمان سے منظور ہونے والے اس قانون کے تحت عدالت سے نااہل قرار دیا جانے والا شخص بھی اب کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے اور اس کی بدولت ہی سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر کو الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر کی گئی 13 درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔
یہ درخواستیں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان، شیخ رشید، پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر افراد اور جماعتوں کی جانب سے دائر کی گئی ہیں جن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنانے کی اجازت دینا آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کے لیے سپریم ادارہ ہے۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتِ عظمیٰ پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
اپنے ریمارکس میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ بنیادی حقوق اور عوامی مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور پارلیمان کے قانون کا جائزہ اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب وہ بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔
انھوں نے درخواست گزاروں کے وکیل سے کہا کہ وہ ایسے عدالتی فیصلوں کی نظریں پیش کریں جن میں پارلیمنٹ کے قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا ہو۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ پارلیمانی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے کیا اصول ہیں؟
درخواست گزاروں کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت فریقین کو نوٹس جاری کرے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت قانون کے مطابق چلتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے میں وفاق اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 23 جنوری تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے سربراہ کا عہدہ بھی چھوڑنا پڑا تھا۔
جس کے بعد انتخابی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت کوئی بھی نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا۔









