آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
سپریم کورٹ: آئی ایس آئی اور آئی بی دھرنے کے معاملے میں سنجیدگی دکھائیں
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق نوٹس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دھرنے والوں کے پیچھے کون ہے؟ انھیں کون لے کر آیا اور اس کا فائدہ کس کو مل رہا ہے؟
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیض آباد میں دھرنا دینے والے افراد کے بارے میں خفیہ اداروں، انٹر سروسز انٹیلیجنس ( آئی ایس آئی) اور انٹیلیجنس بیورو یعنی آئی بی کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ تو سنجیدگی دکھائیں اور یہ کہ ’اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا تیار کر سکتا ہے‘۔
جمعرات کو یہ رپورٹ لے کر وزارت دفاع اور آئی بی کے حکام عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
اس دو رکنی بینچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ شرارت کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ مظاہرین پر گولیاں برسائی جائیں اور ملک میں امن وامان کے حالات خراب کیے جائیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کے حکام کو کہا کہ وہ ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے رپورٹ دیں کہ دھرنے والوں کے پیچھے کون ہے؟ انھیں کون لے کر آیا اور اس کا فائدہ کس کو مل رہا ہے؟
عدالت کا کہنا تھا کہ چند سو افراد نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کے لوگوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی سکون میں ہے تو وہ لوگ جو گذشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ فیض آباد کے قریبی علاقوں میں فرد واحد کی رٹ قائم ہے جبکہ وہاں پر ریاست کی عمل داری نظر نہیں آرہی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جس جگہ پر مظاہرین دھرنا دیے ہوئے ہیں وہاں سے کچھ فاصلے پر حساس تنصیبات بھی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزارت دفاع کے حکام سے استفسار کیا کہ فوج کا ہیڈ کوراٹر بھی کچھ فاصلے پر واقع ہے لیکن اُنھیں اُٹھانے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جارہے۔
عدالت نے وزارت دفاع کے حکام سے کہا کہ جو رپورٹ میں کہا گیا ہے وہ پہلے ہی میڈیا میں چھپ چکا ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے وزارت دفاع کے حکام سے استفسار کیا کہ کیا اُنھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟
عدالت نے آئندہ سماعت کو حساس اداروں کے افسران کو پیش ہونے اور جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
بینچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے حیرانی کا اظہار کیا کہ دھرنا دینے والی جماعت لبیک یا رسول اللہ نے انتخابات میں حصہ لیا اور یہ جماعت اسی نام سے کیسے رجسٹر ہو گئی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے دھرنا دینے والے افراد کے بینک اکاونٹس بند کیے ہیں اور کیا ان کی سپلائی لائن کو کاٹا گیا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بینک اکاونٹس کے بارے میں تفصیلات اکھٹی کی جارہی ہیں۔
اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مظاہرین کے خلاف 18 مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 169 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
وزراتِ داخلہ کا ردِ عمل
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر حکومت چاہے تو تین گھنٹوں میں دھرنا ختم کرواسکتی ہے لیکن ایسا کرنے سے ملک کے شہروں اور گلی محلوں میں لڑائی شروع ہو جائے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت تمام م آپشن پر بڑی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’وہ پورے ملک کے وزیر داخلہ ہیں صرف فیض آباد کے نہیں۔‘