افغانستان میں قیامِ امن کی خاموش کوشش

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ہارون رشید
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
خلیجی ملک اومان کے دارالحکومت مسقط میں گذشتہ روز افغانستان میں پائیدار قیامِ امن کے لیے قائم چار ملکی فورم کا ایک اجلاس تو ہوا ہے لیکن کیا کوئی پیش رفت ہوئی یہ ابھی تک واضح نہیں۔ نا تو پاکستان، امریکہ، افغانستان اور چین پر مشتمل اس گروپ نے اور نہ ہی کسی رکن ملک کے نمائندوں نے اجلاس کے بارے میں کچھ کہا ہے۔
ماضی کے اجلاسوں سے اس مرتبہ کی ملاقات خاموشی کے اعتبار سے یقیناً مختلف ہے۔ افغانستان کے اصرار پر اس گروپ کے ضابطہ کار میں یہ شرط شامل تھی کہ ہر قسم کی پیش رفت سے لوگوں کو آگاہ رکھا جائے گا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریہ سے اس سلسلے میں رابطے کی کوشش سود مند ثابت نہیں ہوئی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ میں گذشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان اس چار ملکی اجلاس میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
تاہم اسلام آباد میں افغان سفارتی اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس گروپ کا یہ اجلاس سکیورٹی پر ہونے والی ایک بڑی کانفرنس کے موقع پر منعقد کیا جا رہا ہے اور اس کی 'علامتی' اہمیت ہے۔ وہ اس سے کسی فوری نتیجے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔
تاہم تجزیہ نگاروں کے بقول طویل عرصے کے بعد اس گروپ کے اجلاس کا دوبارہ منعقد ہونا ہی ایک مثبت پیش رفت تصور کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریہ نے گذشتہ ہفتے ایک بریفنگ میں اس گروپ کے اجلاس کے بارے میں کہا تھا کہ اس گروپ کا ہدف افغانستان میں عسکری گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس گروپ کے دیگر تین ممالک کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ملیں اور اس سلسلے میں آگے کیسے بڑھنا ہے اس کا فیصلہ کریں لیکن اس اجلاس میں افغان طالبان کی شرکت نہیں رہی ہے۔
پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تحمینہ جنجوعہ نے مسقط میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی جبکہ امریکہ کی نمائندگی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ایلس ویلز اور نائب افغان وزیر خارجہ حکمت خلیل شریک تھے۔ چین کی نمائندگی کس نے کی یہ واضح نہیں ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں گذشتہ چند روز سے قبائلی علاقوں میں جاری امریکی ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب طالبان کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے تو ایسے میں یہ ڈرون حملے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔
امریکہ نے گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں کرم ایجنسی کے قریب پاک افغان سرحد کے علاقے میں دو ڈرون حملے کیے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ یہ حملے گذشتہ دنوں پاکستان فوج کی جانب سے غیرملکی مغوی جوڑے کی بازیابی کے بعد تقریباً اسی علاقے میں ہوئے ہیں۔ مغویوی کی رہائی اور ڈرون حملوں میں کسی ربط کی تصدیق شدہ اطلاع تو نہیں لیکن لگتا ہے کہ امریکہ کم از کم بات چیت ہو یا نہ ہو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کسی قیمت پر روکنے کو تیار نہیں۔ یہی جلد بازی گذشتہ برس ملا اختر منصور کی ہلاکت کا سبب تو بنی لیکن مذاکرات نھیں رکے گئے۔
افغانستان میں پائیدار قیام امن کے لیے کئی سطحوں پر کوششیں جاری ہیں اور یہ چار ملکی گروپ بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ہارٹ آف ایشیا اور ایس سی او بھی اس بابت مذاکرات کرتے رہتے ہیں۔
طالبان سے آمنے سامنے مذاکرات کے سلسلے میں چار ملکی گروپ کافی مفید ثابت ہوا ہے۔ یہ اسی گروپ کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ سیاحتی مقام مری میں پہلی مرتبہ طالبان نمائندے بات چیت میں شریک ہوئے تھے لیکن پہلے ملا محد عمر اور بعد میں ملا منصور اختر کی موت کے خبروں سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہAFP
افغان طالبان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ان مذاکرات میں شرکت کی دعوت نہیں ملی ہے اور اگر ملتی بھی تو وہ شریک نہ ہوتے۔ حالیہ اجلاس شاید اس سلسلے کو وہیں سے شروع کرنے کی کوشش ہو گی جہاں یہ گذشتہ برس رک گیا تھا۔
افغانستان کے وزارت خارجہ کے ترجمان شاقب مست غنی کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کا مقصد سابق اجلاس میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کروانا ہے۔ مسقط میں طالبان کی موجودگی ابھی یقینی نہیں لیکن اگر بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو شاید اس جانب پیش رفت آئندہ اجلاسوں میں ہوسکے گی۔











