’پاکستان میں بازوں کی غیر قانونی تجارت پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ‘

    • مصنف, ریاض سہیل
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

دنیا میں جانوروں کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ یا ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حکومت پاکستان کی معاونت سے بازوں کے تحفظ کے لیے آگاہی مہم کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد بازوں کے غیر قانونی شکار اور ان کی فروخت کی حوصلہ شکنی ہے۔

پاکستان کے مختلف ہوائی اڈوں پر بینر آویزاں کیے گئے ہیں، جن پر تحریر ہے کہ 'بحری باز کی مانگ مشرق وسطی کے ممالک میں شکار اور روایتی فالکنیری کے کھیل کے باعث بہت زیادہ ہے، اس کی غیر قانونی تجارت ہی اس کی بقاء کے لیے خطرہ ہے۔ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت اور ملکیت مجرمانہ فعل ہے جس کی سزا دو سال قید یا 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔‘

پاکستان میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق بحری، چراخ اور شہباز بازوں کی نسل خطرے سے دوچار ہے اور غیر قانونی تجارت ہی ان کی نسل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مینجر حمیرا عائشہ کا کہنا ہے کہ اس مہم کا مقصد حکومت سے مل کر غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے لیے اقدامات کے ساتھ عوام میں شعور بیدار کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا 'بعض اوقات لوگ بے خیالی میں بھی اپنے ساتھ جانور لے جاتے ہیں یا انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس طرح سے اس تجارت کا حصہ بن رہے ہیں، ہم نے اس مہم میں اس کے قانونی اور ماحولیاتی اثرات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے‘۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں سے جاری تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں بازوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے اور صرف 2015 میں 46 باز پکڑے گئے تھے۔ اسی طرح گذشتہ سال جنوری میں کراچی ایئرپورٹ سے پانچ باز پکڑے گئے۔

قطر، دبئی، سعودی عرب اور کویت کے حکمران خاندان پاکستان میں موسم سرما میں شکار کے لیے خصوصی کیمپ لگاتے ہیں۔ جس کے دوران نایاب جانوروں کے شکار کی بھی شکایات سامنے آتی ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں قطری شہزادے پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا، جبکہ گذشتہ سال تحریک انصاف نے خاص طور پر قطر کے خلاف مہم بھی جاری رکھی۔

سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر غلام سرور جمالی کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سردیوں کی آمد ہوتی ہے شمالی ممالک سے تلور اور باز ساتھ ساتھ یہاں کا رخ کرتے ہیں، آگے تلور ہوتے ہیں اس کے پیچھے باز آتا ہے۔

ان پرندوں کا راستہ دریائے سندھ اور خاص طور پر ٹھٹہ اور بدین کے ساحلی علاقے ہیں، بازوں کا شکار بھی ان علاقوں میں ہوتا ہے خاص طور پر شاہین یا بحری باز کا ساحلی علاقے اور چرخ کے پہاڑی علاقے میں شکار ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ ٹھٹہ اور بدین میں شکاری چھپ کر کیمپ لگاتے ہیں۔ زیر زمین ایک گڑھا کھود کر اس کے اوپر بوری سے شیلٹر بنایا جاتا ہے اور ساتھ میں باریک ڈوری کے ساتھ چھوٹی نسل کے باز کو باندھ کر اڑایا جاتا ہے، اس چھوٹے باز کے ساتھ پرندے کی کھال کا ٹکرا بھی باندھ دیا جاتا ہے، بڑا باز جیسے ہی اس کا پیچھا کرتے ہوئے زمین پر اترتا ہے تو زمین میں دبے ہوئے جال میں پھنس جاتا ہے۔

یہ شکاری اپنے طور پر یہ کیمپ لگاتے ہیں یا بازوں کے تاجر انہیں اس کیمپ کے اخراجات دیتے ہیں۔ مقامی شکاریوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بحری اور چرخ باز 20 سے 25 لاکھ تک میں فروخت ہوتا ہے اور اس کے خریدار عرب شکاری ہوتے ہیں۔

سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر غلام سرور جمالی کا کہنا ہے کہ اس موسم میں چھاپا مار ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں تاکہ جو شکاری تلور اور باز کا شکار کریں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ میں آٹھ شکاریوں کو پکڑ کر ان پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے اس جرمانے کی حد 50 ہزار رپے تک ہوتی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مینجر حمیرا عائشہ کا کہنا ہے کہ عالمی طور پر انسانی سمگلنگ، منشیات کے کاروبار اور جعلسازی کے بعد جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت چوتھا بڑا جرم سمجھا جاتا ہے اور پاکستان میں اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے کئی جنگلی حیات متاثر ہو رہی ہیں اور اس کی وجہ ان کا غیر قانونی شکار اور بیرون ملک اس کی مانگ ہے۔