آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
سزا یافتہ پولیس افسران نے بینظیر قتل کیس کا فیصلہ چیلنج کر دیا
پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے مقدمۂ قتل میں 17 برس قید کی سزا پانے والے سابق ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ چیلینج کر دیا گیا ہے۔
بینظیر بھٹو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ایک خودکش حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے واقعے کے ساڑھے نو برس بعد گذشتہ ماہ اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جہاں پانچ مرکزی ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا کر باعزت بری کرنے کا حکم دیا تھا وہیں واقعے کے وقت راولپنڈی کے سی پی او سعود عزیز اور ایس پی راول ٹاؤن خرم شہزاد کو فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت برتنے پر 17، 17 برس قید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
ان پولیس افسران کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 119 کے تحت دس، دس سال جبکہ 201 کے تحت سات سات سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی پر انھیں مزید چھ چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔
یہ دونوں افسران ضمانت پر تھے اور عدالتی فیصلے کے بعد ان دونوں کو احاطۂ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ان دونوں مجرمان کے وکلا نے جمعرات کو اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں اپیل دائر کی ہے۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے جو ان کے خلاف فیصلہ دیا وہ حقائق کے منافی ہے اور اس فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
اپیل میں کہا گیا ہے کہ اعانتِ مجرمانہ پر سعود عزیز اور خرم شہزاد کو جو سزا دی گئی اس بارے میں استغاثہ نے عدالت کو کوئی اسے شواہد پیش نہیں کیے کہ ان سے ایسا کوئی جرم سرزد ہوا ہے۔
خیال رہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ دونوں پولیس افسران (سعود عزیز اور خرم شہزاد) کی مجرمانہ غفلت سے جائے وقوعہ کو وہ نقصان پہنچا جس کی تلافی ممکن نہیں تھی۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ پولیس اہلکار جن کی ذمہ داری بینظیر کی گاڑی کو 'باکس سکیورٹی' فراہم کرنا تھی، انھیں سی پی او راولپنڈی سعود عزیز نے ہٹوایا اور کسی ہنگامی صورتحال کے لیے کوئی منصوبہ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ دھماکے کے ایک گھنٹہ 40 منٹ بعد ہی جائے وقوعہ کو دھونے کا فیصلہ بلاجواز تھا جس کا نتیجہ جائے وقوع سے ثبوتوں کی تباہی کی شکل میں نکلا اور ڈی این اے تجزیوں کے لیے مزید ثبوت اکٹھے کرنا انتہائی مشکل ہو گیا۔
ادھر بینظیر کے مقدمۂ قتل کے وکیل استغاثہ چوہدری اظہر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس مقدمے میں ان کی جانب سے تین مرکزی ملزمان تھے جن میں رفاقت علی اور حسنین گل کے علاوہ سعود عزیز بھی شامل ہیں اور ان کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت موجود تھے۔
خرم شہزاد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ انھوں نے جائے وقوعہ دھلوانے کے بارے میں سعود عزیز کا حکم متعلقہ افراد تک پہنچایا تھا۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے بھی اس فیصلے کو چیلینج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس ضمن میں فیصلے کی مصدقہ نقول حاصل کرنے کے لیے متعلقہ عدالت میں درخواست دے دی گئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی بینظیر بھٹو کے قتل کے اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن ابھی تک اس کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے کے فوری بعد پنجاب حکومت نے وزارت داخلہ اور پولیس کے انسداد دہشت گردی کے محکمے کی سفارشات کی روشنی میں بری ہونے والے پانچوں افراد کو خدشہ نقص امن کے تحت 30 روز کے لیے نظربند کر دیا تھا۔
آخری اطلاعات کے مطابق انھیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔