آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ جمعرات کو متوقع
راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور امکان ہے کہ یہ فیصلہ جمعرات 31 اگست کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سنایا جائے گا۔
اس مقدمے میں گرفتار پانچ ملزمان ان دنوں اڈیالہ جیل میں ہیں اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انھیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا، اس لیے اس مقدمے کا فیصلہ جیل میں ہی سنایا جائے گا۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج محمد اصغر خان نے بدھ کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی سماعت کی۔
مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری اظہر نے سماعت کے دوران حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی آڈیو ریکارڈنگ اس مقدمے کے ملزم اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تیار کروائی تھی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
سرکاری وکیل نے کہا کہ اگرچہ پنجاب پولیس نے متعلقہ عدالت میں پیش کیے گئے چالان میں اس آڈیو ریکارڈنگ کو ریکارڈ کا حصہ تو ضرور بنایا لیکن اس کو بطور ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
چوہدری اظہر نے کہا کہ ابھی تک یہ بات بھی سامنے نہیں آئی ہے کہ بیت اللہ محسود کس سے بات کر رہا ہے اور یہ گفتگو کس موبائل نمبر سے ہو رہی تھی۔
خیال رہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے دو روز بعد ہی اس وقت کی حکومت کی جانب سے ایک آڈیو جاری کی گئی تھی جس میں ایک شخص ایک دوسرے شخص کو اس واقعے پر مبارکباد دے رہا تھا۔ ان افراد میں سے ایک حکومت کے بقول بیت اللہ محسود تھا جو اپنے دوسرے ساتھی سے بات کر رہا تھا لیکن اس پوری ریکارڈنگ میں بے نظیر بھٹو کا نام نہیں لیا گیا۔
فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے جس اہلکار نے بیت اللہ محسود کی یہ مبینہ گفتگو ریکارڈ کی تھی اس نے عدالت میں پیش ہو کر بیان دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
چوہدری اظہر کا کہنا تھا کہ اس آڈیو کے بارے میں اس وقت کے نیشنل کرائسز مینیجمنٹ کے سربراہ برگیڈئیر ریٹارئرڈ جاوید اقبال اور سیکریٹری داخلہ کمال شاہ نے بیانات ریکارڈ کروائے جس میں انھوں نے کہا 'انھیں اس آڈیو کے بارے میں ایک بیان تھمایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس بیان کے آگے یا پیچھے نہیں ہونا۔'
اس آڈیو ریکارڈنگ کے منظر عام پر آنے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بیت اللہ محسود کو بےنظیر بھٹو کے قتل کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا جبکہ اس میں گرفتار ہونے والے افراد کو بیت اللہ محسود اور خود کش حملہ آوروں کا سہولت کار قرار دیا تھا۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اصل ملزمان حسنین گل، محمد رفاقت، شیر زمان اور عبدالرشید ہی ہیں جنھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کیا تھا۔
انھوں نے اس وقت کے راولپنڈی پولیس کے سربراہ سعود عزیز کو حملہ آوروں کا سہولت کار قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ایک سازش کے تحت بےنظیر بھٹو کی سکیورٹی پر تعینات اے ایس پی اشفاق انور کو ڈیوٹی سے ہٹایا جبکہ سکیورٹی انتظامات کی نگرانی اس وقت کے ایس ایس پی آپریشن یاسین فاروق کی تھی۔
ملزمان حسنین گل، محمد رفاقت، عبدالرشید اور شیر زمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ اگر سرکاری وکیل کی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر سارا مقدمہ ہی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ تفتیشی اداروں نے بیت اللہ محسود کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ استغاثہ کے دلائل محض مفروضوں پر مبنی ہیں اور ثبوت کے بغیر عدالت ان کے موکلین کو قصور وار قرار نہیں دے سکتی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بدھ کو اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
واضح رہے کہ اس مقدمے میں آٹھ ملزمان ہیں جن میں سے محمد رفاقت، حسنین گل، شیر زمان، عبدالرشید اور اعتزاز شاہ جیل میں ہیں، ایڈشنل آئی جی سعود عزیز اور خرم شہزاد ضمانت پر ہیں جبکہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف اشتہاری ہیں۔