کراچی سرکلر ریلوے کی راہ میں تجاوزات رکاوٹ

،ویڈیو کیپشنکراچی سرکلر ریلوے کا گمشدہ ٹریک
    • مصنف, ریاض سہیل
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

رات کے بچے ہوئے چاول لکڑیاں جلا کر گرم کیے جارہے ہیں اور ساتھ والے کمرے میں بچے کھانے کے منتظر ہیں۔ دوپہر دو بجے کا وقت ہے گھر سے تقریباً 30 فٹ کی دوری سے ایک ٹرین تیزی کے ساتھ گزرتی ہے۔

19 سالہ یاسمین محدود وسائل کے ساتھ ڈیڑھ کمرے کے مکان میں رہتی ہیں، زندگی کا گزارہ پہلے ہی مشکل تھا لیکن اب وہ اس گھر سے بھی محروم ہونے والی ہیں جو چینسر ہالٹ پر سرکلر ریلوے سٹیشن پر بنا ہوا ہے۔

’والد کے دونوں گردے خراب ہو چکے ہیں، چچا کو مرگی کا مرض ہے امی بنگلوز میں جاکر کام کرتی ہیں۔ پہلے ہی کئی پریشانیوں میں گہرے ہوئے ہیں اب سنا ہے کہ یہ گھر ٹوٹ رہے ہیں ہم کہاں جائیں گے۔‘

یاسمین کے گھر سے چند میٹر دور پکی کالونی بنی ہوئی ہے، جس میں گیس اور بجلی کے میٹر نصب ہیں۔ رمیزہ مسیح ڈیڑھ کمرے کے گھر میں 40 سال قبل شادی کرکے آئی تھیں ان کے ساس سسر اور شوہر کا انتقال بھی یہاں ہی ہوا۔

بالائی حصےمیں انھوں نے ایک بیٹے کو کمرہ بنا کر دیا ہے جہاں وہ نوبیاہتی دلہن کے ساتھ رہتا ہے جبکہ ایک بیٹے اور بیٹی کی وہ شادی کروانے کی خواہش مند ہیں۔

’یہاں سے ہم کہاں جائیں گے موجودہ دور میں پلاٹ لینا اور اس پر گھر بنانا ہم جیسے غریبوں کے بس کی بات ہی نہیں۔ اتنے سارے لوگ ہیں اگر حکومت نے ہٹایا تو لگتا ہے بہت بلوا ہوگا۔‘

کراچی

حکومت سندھ کو سرکلر ریلوے منصوبے کے لیے 360 ایکڑ زمین درکار ہے، جس میں سے 70 ایکڑ پر قبضہ ہے، جہاں ساڑھے چار ہزار کے قریب مکانات اور تین ہزار دیگر تعمیرات موجود ہیں۔

گلشن اقبال 13 ڈی، بھنگوریا گوٹھ اور پاپوش میں تو ریلوے ٹریک ہی لاپتہ ہو گیا ہے۔ کئی کلومیٹر علاقے پر اب کاروباری مراکز قائم ہو چکے ہیں۔

1990 کی دہائی میں وفاقی حکومت نے کینیڈا کی ایک کمپنی کے ساتھ سرکلر ریلوے کے لیے معاہدہ کیا تھا لیکن اس پر پیش رفت نہیں ہوئی۔

اس کے بعد جاپان کے ترقیاتی ادارے جائیکا نے دلچسپی کا اظہار کیا، دو سال سروے ہوئے لیکن ٹریک پر موجود تجاوزات راہ میں رکاٹ بنی رہیں اور بالاخر جائیکا خود ہی پیچھے ہو گئی۔

جائیکا نے متاثرین کو ملیر کے جمعہ گوٹھ میں متبادل گھر کے ساتھ 50 ہزار روپے نقد دینے کا بھی وعدہ کیا تھا، لیکن موجودہ حکومت نے کوئی پالیسی واضح نہیں کی، جس وجہ سے متاثرین میں غیر یقینی کی صورتحال موجود ہے اور تمام متاثرین مشترکہ لائحہ عمل بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔

مسلم کالونی سے تحریک انصاف کے کونسلر محمد عرفان کا کہنا ہے کہ 50 فٹ کے اندر جتنی تجاوزات ہیں وہ دستبردار ہونے کو تیار ہیں، لیکن اس کے متبادل انھیں جگہ اور تعمیر کے لیے پیسہ دیا جائے کیونکہ ان کا کل اثاثہ یہ ہی مکانات ہیں۔

کراچی

’ٹریک سے سو میٹر کے باہر پکی آبادیاں ہیں انھیں نوٹس دیا گیا ہے جبکہ کچی بستیوں کو 50 فٹ کے اندر ہی غیر قانونی تجاوزات قرار دیا جارہا ہے یہ فرق کیوں ہے؟‘

سرکلر ریلوے منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا حصہ بن چکا ہے۔ 48 کلومیٹر ٹریک زیادہ تر سطح زمین سے بلند بنایا جائے گا۔

صوبائی حکومت رواں سال ستمبر سے تعمیراتی کام کے آغاز کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سے پہلے مطلوبہ علاقے کو خالی کروا کے باڑ لگا دی جائے گی۔

صوبائی حکومت کی نظر میں ٹریک کے آس پاس آباد سب لوگ قابض ہیں جن کو معاوضے کی ادائیگی کا کوئی واضح پروگرام نہیں۔ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ یہ لائن 1999 تک چلتی رہی ہے وہاں جو لوگ بھی آباد ہیں وہ غیر قانونی طور پر بیٹھے ہیں۔

کراچی

’جائیکا نے جو سروے کیا تھا اس میں انھوں نے چار ہزار مکانات کی نشاندہی کی تھی، ہم دیکھیں گے کہ انھیں کیا معاوضہ دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی متاثر پر کوئی غور نہیں کیا جائے گا۔‘

کراچی کے میئر وسیم اختر سرکلر ریلوے پر عملدرآمد سے پرامید نہیں۔ بقول ان کے میونسپل کا میئر ہو یا ڈی ایم سیز کے چیئرمین انھیں آن بورڈ نہیں لیا گیا۔

ان کے بقول : ’اگر ہم شامل ہوں گے تو ان تجاویزات کو ہٹانے میں مدد بھی کریں گے۔ لوگ سمجھدار ہیں اگر انھیں متبادل جگہ فراہم کی جائے تو کوئی مشکل نہیں۔‘

وسیم اختر مشیر بلدیات بھی رہ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کے بارے میں وہ کافی علم رکھتے ہیں۔ ماضی میں گورنر کے ساتھ کافی پیش رفت ہوئی تھی لیکن دوبارہ سرد خانے کا شکار ہو گیا اب بھی یہ مسئلہ حل ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا۔

صوبائی حکومت کا اندازہ ہے کہ سرکلر ریلوے کے ذریعے یومیہ سات لاکھ لوگ سفر کریں گے جس سے شہر میں ٹریفک کی صورتحال ممعول پر آئے گی، اس کے علاوہ ایندھن کی کھپت اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی۔