افغانستان سے پاکستانی قبائلی خاندانوں کی وطن واپسی

    • مصنف, عزیز اللہ خان
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

افغانستان کے صوبہ خوست میں پناہ لینے والے پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان ایجنسی کے چار سو متاثرہ خاندان واپس پہنچ گئے ہیں جن کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد نے واپسی کے لیے اب تک رجسٹریشن نہیں کرائی ہے۔

متاثرین کی واپسی شمالی وزیرستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے غلام خان کے راستے سے ہو رہی ہے۔ گذشتہ روز دو سو خاندان غلام خان پہنچے تھے جن میں سے 73 خاندان ایسے تھے جن کی رجسٹریشن غلام خان میں مکمل ہو گئی تھی، انھیں خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے قریب واقع متاثرین کے کیمپ بکا خیل پہنچایا گیا ہے جبکہ 127 خاندان غلام خان میں ہی مقیم ہیں۔

افغانستان کے صوبہ خوست سے متاثرین کے ایک ترجمان مولوی خان دراز داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ غلام خان میں متاثرین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ خود متاثرین کے ساتھ غلام خان تک گئے جہاں 127 خاندان گذشتہ روز سے موجود تھے، جبکہ دو سو خاندان منگل کو پہنچے ہیں۔ ان کے بقول غلام خان کے مقام پر گاڑیوں کی قطاریں تھیں جہاں شدید سردی اور برف باری سے خواتین اور بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔

مولوی خان دراز داوڑ کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں کوئی 14 سے 15 ہزار پاکستانی خاندان مقیم ہیں لیکن اب تک واپس جانے کے لیے رجسٹریشن دو ہزار افراد نے کرائی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ سات سے آٹھ ہزار خاندان خوست اور لگ بھگ اتنے ہی پکتیا میں مقیم ہیں لیکن بیشتر متاثرین اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں انھیں بکا خیل کیمپ میں طویل عرصے تک رہنا نہ پڑ جائے۔

’اس وقت تو متاثرہ خاندانوں سے کہا گیا ہے کہ بکا خیل کمیپ میں صرف دو سے تین ہفتے قیام ہوگا جس کے بعد انھیں اپنے علاقوں کو بھیج دیا جائے گا۔‘

افغانستان کی جانب ان لوگوں نے نقل مکانی کی تھی جن کے علاقے پاک افغان سرحد کے قریب تھے۔ ان متاثرین کی واپسی کے لیے شمالی وزیرستان ایجنسی کی انتظامیہ اور متاثرین کے نمائندوں کے درمیان ایک عرصے سے مذاکرات جاری تھے۔

مقامی انتطامیہ کی جانب سے ان متاثرین کو پیغامات بھی پہنچائے گئے تھے اور قبائلی رہنماوں کو بھی افغانستان بھیجا گیا تھا تاکہ ان افراد کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔

اس بارے میں قبائلی علاقوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے ایف ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد خالد نے بی بی سی کو بتایا کہ غلام خان میں عارضی کیمپ قائم ہے جہاں پہنچے والے تمام متاثرین کو تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جن میں خوراک اور خیمے شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ غلام خان میں تین سو خیمے لگائے گئے ہیں جہاں خوراک اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ غلام خان میں متاثرین کو مشکلات کا سامنا ہے۔

جنرل محمد خالد کا کہنا تھا کہ ان متاثرین کو بکا خیل کیمپ لانا ضروری ہے تاکہ ان کے دستاویزات مکمل کیے جا سکیں کیونکہ بیشتر افراد کے شناختی کارڈ بھی نہیں بنے ہیں۔

خیال رہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب جون 2014 میں شروع کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں کوئی دس لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔

نقل مکانی کرنے والے افراد میں بڑی تعداد خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جبکہ دیگر افراد کو جس طرف مناسب راستہ ملا اسی جانب روانہ ہو گئے تھے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے والے پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل پہلے سے جاری ہے اور حکام کے مطابق اس سال جون تک تمام متاثرین اپنے علاقوں کو واپسں پہنچ جائیں گے۔