طیبہ تشدد کیس: سیشن جج کو کام سے روک دیا گیا

    • مصنف, شہزاد ملک
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کے ہاتھوں تشدد شکار ہونے والی دس سالہ لڑکی طیبہ کے مقدمے کی ملزمہ کے خاوند راجہ خرم علی کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔

راجہ خرم علی وفاقی دارالحکومت میں ایڈیشنل سیشن جج ایسٹ کے طور اپنے فرائص سرانجام دے رہے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے یہ اقدام طیبہ پر ہونے والے تشدد کے مقدمے کی تحقیقات پر مذکورہ جج کی طرف سے ممکنہ طور پر اثرانداز ہونے کی بنا پر کیا گیا ہے۔

عدالت نے راجہ خرم علی خان کو آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی مقرر کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ تین سال قبل بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر راجہ خرم علی حان سے سرکاری خدمات واپس لی گئی تھیں۔

دس سالہ طیبہ پر ایڈیشنل سیشن جج کی بیوی ماہین ظفر کی طرف سے تشدد کے بارے میں از خود نوٹس میں پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد پولیس کو احکامات جاری کیے تھے کہ وہ اس مقدمے کی تحقیقات میں کوئی دباؤ قبول نہ ڈالیں۔

پولیس کے ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے حکام نے متعلقہ ہائی کورٹ سے رابطہ کیا اور اُنھیں اپنے خدشات سے آگاہ کیا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں ملزمہ کے خاوند راجہ خرم علی خان جو اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج ہیں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی پولیس کی ٹیم راجہ ظہور ایڈووکیٹ کو تلاش کر رہی ہے جنھوں نے طیبہ کے والدین اور ملزمہ کے درمیان صلح کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیشی ٹیم جڑانوالہ کی رہائشی نادرہ سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے گئی ہے جس کے کہنے پر طیبہ کے والد محمد اعظم نے اپنی بیٹی کو گھر میں کام کرنے کے لیے بھجوایا تھا۔

طیبہ کے والد کا موقف تھا کہ نادرہ نے اُنھیں بتایا تھا کہ فیصل آباد میں ایک گھرانے کو ایک بچی کی ضرورت ہے جس کا کام اس کے چھوٹے بچے کو صرف کھلانا ہے۔