آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
’زرداری اور بلاول کی سیاست کا ملاپ‘
- مصنف, ذیشان ظفر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے سیاسی ماحول میں پیپلز پارٹی کا ستائیس دسمبر کا جلسہ کوئی زیادہ ہلچل پیدا نہیں کر سکا لیکن پارلیمان کی حد تک فرینڈلی اپوزیشن کے تاثر کو دور کرنے کے اقدامات کے اعلانات نے توجہ حاصل کی ہے۔
پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر 18 ماہ کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد لوٹنے والے سابق صدر آصف علی زدراری نے حکمراں جماعت مسلم لیگ نواز کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا لیکن اسے سڑکوں کی بجائے پارلیمان اور عدالتیں تک محدود رکھنے کا اعلان کیا۔
دوسری جانب پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں توقع تھی کہ وہ اپنے چار مطالبات پورے نہ ہونے پر حکومت مخالف سخت اعلانات کریں گے۔ لیکن انھوں نے بھی صرف تنقید کے تیر برسائے اور اپنی تقریر کے اختتام پر جب پنڈال میں کارکنوں کا شور اٹھا تو حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا عندیہ دیا لیکن اس کے بارے میں بھی حتمی اعلان نہیں کیا۔
اس بارے میں سیاسی امور کے ماہر سہیل وڑائچ کے مطابق چونکہ اب انتخابات قریب ہیں اس لیے پیپلز پارٹی فرینڈلی اپوزیشن کے تاثر کو ختم کر کے حقیقی اپوزیشن کرنا چاہتی ہے جس میں ان کا مقابلہ تحریک انصاف سے ہے۔
حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی بجائے پارلیمان کی حد تک احتجاج کے فیصلے پر سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ 'پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے کہ سندھ میں ان کا تنظیمی ڈھانچہ کسی حد تک بہتر ہے لیکن پنجاب میں اس کے حالات بہت برے ہیں اور اس پارٹی نے حقیقی اور معروضی جائزہ لیا ہو گا اگر وہ لانگ مارچ کرتے ہیں تو وہ کتنا موثر ثابت ہو گا۔'
پیپلز پارٹی کے پارلیمان کی سطح پر احتجاج کے بارے میں سیاسی امور کے ماہر عارف نظامی نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرادری کے حکومت سے جو مطالبات ہیں اس پر کوئی تحریک نہیں چلائی جا سکتی۔ 'کیا وہ اس بات پر لوگوں کو سڑکوں پر اکھٹا کریں گے کہ ملک کا وزیر خارجہ ہونا چاہیے، سی پیک منصوبے کے روٹ پر، یا نیشنل سکیورٹی پر کمیٹی ہونی چاہیے؟'
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
انھوں نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے برعکس پیپلز پارٹی کسی بڑے مسئلے پر نواز شریف کے خلاف کھل کر سٹینڈ نہیں لیتے جیسا کہ تحریک انصاف کے طریقہ کار سے اختلاف ہی سہی لیکن انھوں نے کرپشن کے الزام پر سٹینڈ لیا ہے مگر پیپلز پارٹی کا کرپشن پر بھی سٹینڈ کمزور ہے تو لوگ کس بات پر ان کے ساتھ اکٹھے ہو گے۔
تاہم انھوں نے اس موقف کی تائید کی ہے اس وقت پیپلز پارٹی کا ہدف پارلیمان کے اندر مضبوط اپوزیشن ہے اور اس کے ساتھ پنجاب میں تنظیم سازی پر توجہ دینا ہے۔
حکومت کا پارلیمان کے اندر ایک موثر اور جارحانہ اپوزیشن سے دباؤ میں آنے پر سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ اس وقت حزب مخالف کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ گرینڈ اپوزیشن اتحاد بنانے میں ناکام رہی ہے اور حکومتیں اس وقت ہی دباؤ میں آتی ہیں جب حزب مخالف کی جماعتیں اس کے خلاف اتحاد بنائیں۔
'ہاں اگر زرداری اسمبلی کے اندر آ گئے اور بلاول جارحانہ تقاریر کرتے ہیں اور ساتھ میں زرداری کے پیچھے بیٹھ کر ڈارئنگ روم سیاست کرتے رہے اور اپنے مہرے ہلاتے رہے تو گرینڈ اپوزیشن بن سکتی ہے۔'
آصف علی زرادری کے بیرون ملک جانے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے حکومت کے خلاف جارحانہ سیاست پر کئی حلقوں کا کہنا تھا کہ اب پیپلز پارٹی ایک مختلف شکل میں سامنے آئے گی لیکن 27 دسمبر کے جلسے میں ایک بار پھر یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ پارٹی میں مفاہمت کی پالیسی جاری رہے گی۔
اس پر تجزیہ کار سہیل سانگی کے مطابق بلاول بھٹو نے عام لوگوں اور جیالوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اب کی پیپلز پارٹی مختلف ہو گی لیکن آصف علی زرداری کے واپس آنے سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ بلاول کا کام یا تو ادھورا رہ جائے گا یا اس پر پانی پھر جائے گا۔
'بلاول نے سیاست کا جو انداز اپنایا تھا وہ بالکل متاثر ہو گا۔ لیکن دونوں کی سیاست کا طریقہ کار مختلف ہو گا جس میں پارٹی چاہے گی کہ نوجوانوں کو پارٹی سے جوڑنے کے لیے بلاول بھٹو کا انداز سیاست رہے۔ لیکن جب زرداری صاحب کی مفاہمت والی سیاست غلبہ حاصل کرے گی تو اس صورت میں بڑے کی سیاست چلے گی اور چھوٹے کی سیاست کا طریقہ کار دب جائے گا۔'
تاہم سہیل وڑائچ نے مختلف رائے دیتے ہوئے کہا کہ 'بلاول جارحانہ سیاست کرنا چاہتے ہیں جبکہ زرداری مفاہمتی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں کی عمروں اور تجربے کا بھی فرق ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ زرداری کا مستقبل بلاول ہے اور اسی وجہ سے میں نے دیکھا ہے کہ اگر بلاول کسی بات پر اڑ جائیں تو زرداری پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں تمام زور صوبہ پنجاب میں ہو گا جس میں ایک مضبوط حزب اختلاف کی ساکھ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی کوشش ہو گی کہ جنوبی پنجاب پر زیادہ توجہ دی جائے جہاں تحریک انصاف کا اثر کم ہے اور دوسرا پنجاب کے ان حلقوں میں کام کیا جائے جہاں اس کے امیدوار دوسری پوزیشن پر ہیں۔