آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
عمران خان کی جانب سے بائیکاٹ ختم کرنے کی وجہ کیا بنی؟
- مصنف, رضا ہمدانی
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان تحریک انصاف نے منگل کو ایک بار پھر پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ بدھ یعنی آج وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک استحقاق اور تحریک التوا پیش کریں گے۔
ان دونوں تحاریک کا تعلق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے پاناما لیکس کے حوالے سے اسمبلی میں دیے گئے بیانات سے ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اسمبلی کا بائیکاٹ ختم کرکے واپس اسبلی جانے کا فیصلہ کیا ہو۔
اس سے قبل 18 اگست 2014 کو پی ٹی آئی نے اسمبلی کا بائیکاٹ یہ کہہ کر کیا تھا کہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے انصاف ملنے کے تمام آپشنز ختم ہو گئے ہیں۔
تاہم یہ بائیکاٹ سات ماہ بعد اپریل میں جماعت کے چیئرمین عمران خان نے اس وقت ختم کیا جب یمن کے خلاف سعودی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئی تھیں۔
اس وقت عمران خان نے بائیکاٹ ختم کرنے کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ ’یمن کے معاملے پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بہت اہم ہے اور ہمیں ہر کسی کی جنگ اپنی جنگ نہیں بنا لینی چاہیے'۔
تاہم اس کے بعد اکتوبر میں تحریک انصاف نے ایک بار پھر یہ کہہ کر اسمبلی کا بائیکاٹ کیا کہ وزیر اعظم نواز شریف مستعفی ہوں یا پھر خود کو پاناما لیکس کے حوالے سے احتساب کے لیے پیش کریں۔
ایک طرف تو عمران خان نے یمن کے معاملے پر مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے بائیکاٹ ختم کیا لیکن جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری کشیدگی پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تو انھوں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اب کی بار عمران خان کی جانب سے بائیکاٹ ختم کرنے کی وجہ کیا بنی ہے؟
اس حوالے سے تجزیہ کار نسیم زہرہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے بائیکاٹ ختم کرنے کا مقصد وزیر اعظم نواز شریف پر دباؤ بڑھانا ہے۔
نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کو معلوم ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم پر پاناما لیکس کے حوالے سے دباؤ بڑھانے کے لیے ہر فورم اور ہر پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ سپریم کورٹ ہو یا پارلیمان۔'
انھوں نے کہا کہ ’ایک تو پی ٹی آئی کو اس کے ارکان پارلیمان کے اسمبلی کی کمیٹیوں میں تو جانے لیکن پارلیمان سے دور رہنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا تھا دوسرا جماعت کے اندر یہ بات کی جا رہی تھی کہ پارٹی کو اسمبلی جیسے فورم سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔'
نسیم زہرہ نے کہا کہ ’اگرچہ عمران خان ذاتی طور پر پارلیمان میں واپس جانے کے حق میں نہیں ہیں لیکن پارٹی کے اندر بہت سے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جماعت کو اسمبلی میں واپس جانا چاہیے۔'
اس بارے میں جب صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کافی بار یو ٹرن لے چکی ہے۔
عارف نظامی کے بقول:’اب پی ٹی آئی کے لیے پارلیمان کا بائیکاٹ فائدہ مند نہیں رہ گیا تھا کیونکہ جو ان کو امید تھی سپریم کورٹ سے وہ پوری نہیں ہوئی اور اب وہ معاملہ لٹک گیا ہے، اس لیے میرا خیال ہے کہ انھوں نے پارلیمنٹ کا دوبارہ رخ کیا ہے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ پی ٹی آئی نے یہ کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں واپس ایک خاص مقصد کے لیے جا رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق نواز شریف نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا تھا۔'
پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بائیکاٹ ختم کرنے کے حوالے سے کہا کہ پارلیمان بھی ایک فورم ہے جہاں جماعت کا خیال ہے کہ آواز اٹھانی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ 'الیکشن دھاندلی اور بدعنوانی کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی اور دونوں ہی ایشوز میں اسمبلی کی کارکردگی نہایت مایوس کن تھی، مگر ہم ایک بار دوبارہ کل اسمبلی میں وزیر اعظم کے بیان کے حوالے سے آواز اٹھائیں گے اس امید سے کہ یہاں بھی ایسا ہو جائے جیسا جنوبی کوریا میں ہوا ہے۔'
تاہم عارف نظامی کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کوئی اینٹٹی نہیں ہے وہ ان لوگوں سے بنتی ہے جن کو منتخب کر کے پارلیمنٹ میں لایا جاتا ہے۔
’اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرے تو یقیناً فرق پڑ سکتا ہے، لیکن میرے خیال میں اب تک عمران خان سولو فلائٹ کے حق میں تھے تاہم اب وہ سوچ رہے ہوں گے کہ سولو فلائٹ کی پالیسی میں تھوڑی ترمیم کی جائے اور اسمبلی کے اندر وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سپورٹ حاصل کی جائے۔'
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے منگل کے روز کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے اندر بھی دو گروپ ہیں۔
ان کے مطابق: ’ایک بلاول بھٹو اور شیری رحمان کا ہے جو سڑکوں پر آنے کے حق میں ہیں اور دوسرا سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا ہے جو کہتے ہیں کہ افہام و تفہیم سے چلا جائے۔'
اس حوالے سے نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ’یہ بہت اہم بات ہے کہ جہاں پی ٹی آئی تحریک استحقاق جمع کرا رہی ہے وہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی منگل کے روز تحریک استحقاق جمع کرائی۔‘
نسیم زہرہ نے کہا کہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے لائحہ عمل میں سب سے اہم کردار آصف علی زرداری کا ہو گا۔
'ہو سکتا ہے کہ آصف علی زرداری کے ذہن میں کوئی بڑی گیم ہو اور وہ اس بحران میں کوئی بڑا فاعدہ اٹھانا چاہتے ہوں اور وہ اس ساری پالیسی کو ہی تبدیل کر دیں۔'