نیکٹا نے جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی العالمی کو کالعدم قرار دے دیا

جماعت الاحرار

،تصویر کا ذریعہHassan Abdullah

،تصویر کا کیپشناگست میں امریکہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ جماعت الاحرار کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا
    • مصنف, رضا ہمدانی
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

انسداد دہشت گردی کے وفاقی ادارے نیکٹا نے مزید دو تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس کے بعد پاکستان میں کالعدم تنظیموں کی تعداد 63 ہو گئی ہے۔

نیکٹا کے مطابق جن دو شدت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ان میں ایک جماعت الاحرار اور دوسری لشکر جھنگوی العالمی شامل ہیں۔

ان دونوں تنظیموں کو 11 نومبر 2016 کو کالعدم تنظیموں میں شامل کیا گیا ہے۔

رواں سال یہ پہلی دو شدت پسند تنظیمیں ہیں جو کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ پچھلے سال صرف ایک شدت پسند تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا تھا جو کہ اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم تھی۔

یاد رہے کہ رواں سال چار اگست کو امریکہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ جماعت الاحرار کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

پاکستان نے امریکہ کی جانب سے جماعت الحرار کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیے جانے کا خیر مقدم کیا تھا۔

امریکہ نے گروپ پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے کے بعد امریکی حدود کے دائرہ اختیار میں موجود کوئی بھی پراپرٹی، جس میں جماعت الاحرار کا مفاد شامل ہو، بلاک تصور کی جائے گی جبکہ امریکی شہریوں پر بھی اس تنظیم سے لین دین کرنے پر پابندی عائد ہوگی۔

خیال رہے کہ جماعت الحرار ٹی ٹی پی کا ایک ذیلی گروپ ہے جو پاک افغان سرحدی علاقوں میں سرگرم ہے۔ اس کی تشکیل 2014 میں ٹی ٹی پی کے ایک سابق امیر کے ہاتھوں ہوئی۔

جماعت الاحرار

پاکستان میں طالبان کی تنظیم میں ٹوٹ پھوٹ سے 'جماعت الاحرار' نامی ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور قاسم خراسانی کی بطور امیر تعیناتی کا اعلان کیا گیا۔

'احرار الہند' نامی تنظیم کو اب نیا نام 'تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار' دیا گیا ہے۔ قبائلی علاقے مہمند کے علاوہ کئی دیگر علاقوں کے گروپوں نے اس میں شمولیت کا بھی اعلان کیا ہے۔

احرار الہند کا نام پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا جب تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا۔ اس گروپ نے اسلام آباد میں کچہری پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اب یہ بظاہر تحریک طالبان کے اندر ناراض یا مایوس افراد کو اکٹھا کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔

اس تنظیم کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا تھا کہ 'دراصل نئے گروپ میں تحریک طالبان کے اکثر بانی اراکین شامل ہیں لہٰذا اب یہ ہی اصل تحریک طالبان ہے'۔

لشکر جھنگوی العالمی

کوئٹہ

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنکوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے حملے کے بعد فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل شیر افگن کا کہنا ہے کہ اس حملے میں لشکر جھنگوی العالمی ملوث ہے

اس کالعدم تنظیم کا قیام بنیادی طور پر فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث گروپ لشکری جھنگوی کے ٹوٹنے سے عمل میں آیا تھا۔ اس کے علاوہ ایشیئن ٹائیگرز، جنداللہ اور جند الحفصہ نامی دیگر ایسے گروپ تھے جنھوں نے لشکر جھنگوی سے جنم لیا تھا۔

لشکر جھنگوی خود بھی سنہ 1996 میں ایک دوسری فرقہ وارانہ تنظیم سپاہ صحابہ کی کوکھ سے پیدا ہوئی تھی اور کراچی سے لے کر قبائلی علاقوں تک فوجی آپریشن ضرب عضب سے قبل اپنا وجود رکھتی تھی۔

حملے میں 100 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں لشکرِ جھنگوی العالمی کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا تحریک طالبان جماعت الحرار کی طرح سرگرم تو نہیں ہے لیکن یہ حملہ کراچی اور پنجاب میں شدت پسندوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا ردعمل ہوسکتا ہے۔

اس سال اگست میں کراچی میں رینجرز نے لشکرِ جھنگوی العالمی کے ایک رہنما سید صفدر کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی تھی۔ سید صفدر عرف یوسف خراسانی پر الزام ہے کہ وہ ملک میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

لشکر جھنگوی العالمی نے کوئٹہ میں جنوری سنہ 2013 میں ایک حملے میں 92 جبکہ فروری میں ایک بازار پر حملے میں 81 افراد کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ ان حملوں میں مرنے والوں کی اکثریت شیعہ ہزارہ برادری کے افراد کی تھی۔

پولیس کے تربیتی مرکز جیسی بڑی سکیورٹی تنصیب کو نشانہ بنا کر تنظیم نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اب بھی اس طرح کی کارروائیوں کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سکیورٹی حکام کی جانب سے فوری طور پر لشکری جھنگوی العالمی کا نام لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں ممکنہ طور پر ایسے کسی حملے کا خدشہ تھا۔