یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے!

لاہور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنحکومتِ پنجاب سموگ کی وجہ سے سکولوں میں چھٹیاں کرنے پر بھی غور کر رہی ہے
    • مصنف, آمنہ مفتی
    • عہدہ, مصنفہ و کالم نگار

نانی اماں کہا کرتی تھیں کہ حشرات اور چھپکلیاں، دیوالی کے دیے چاٹ کر غائب ہو جاتے ہیں اور ہولی پھنکتے ہی باہر نکل آتے ہیں۔ وہ چھپکلیاں بھی غالباً گنگا جمنی تہذیب کی پروردہ تھیں، بندھے ٹکے اصولوں پہ چلا کرتی تھیں۔

پھر جب سیاست کی چھری نے تہذیب کی کھال اتارنا شروع کی تو چھپکلیاں بھی چکرا گئیں اور انہیں سرمائی نیند کی ادا بھول گئی۔ اب تو دسمبر کے کڑکڑاتے جاڑوں میں بھی اکا دکا چھپکلی نظر آجاتی ہے۔

کچھ ایسا ہی حال پودوں اور درختوں کا ہوا۔ پچھلے سال میں نے جنوری میں ایک آم کے درخت کو بور سے لدا ہوا دیکھا۔ کئی سال سے ساون بھادوں سوکھے ہی گزر جاتے ہیں۔ اسّو میں سیلاب آجاتے ہیں۔

اس سال آلو کی کاشت کا موسم آیا جو پانچ اکتوبر سے شروع ہوتا ہے، مگر درجۂ حرارت مطلوبہ حد تک کم نہ ہونے کے باعث، پہلے تو کسانوں نے انتظار کیا، محکمہ زراعت اور موسمیات اس دوران کسی ضروری کام سے سوتے رہے۔ آخر اپنی عقل لڑا کے رات کے دوسرے پہر سے سورج چڑھنے تک بیجائی کی گئی۔

اس دوران دھان کی کٹائی مکمل ہو گئی۔ گندم اور پچھیتے آلو کی کاشت کے لیے زمین بنانے کی خاطر دھان کے وڈھ (ٹھنٹھ) کو آگ لگائی گئی۔ سرحد کے ادھراور ادھر ہزاروں ایکڑ کھیت جلائے گئے۔

یہ آگ ہر برس ہی لگائی جاتی ہے مگراس برس یوں لگا کہ یہ دھواں ٹھہر گیا ہے۔ مشرقی اور مغربی پنجاب کے بہت سے شہروں پہ ایک بددعا کی طرح معلق یہ دھواں کیا ہے؟

غلغلہ مچا کہ دیوالی پہ کی گئی آتش بازی کا شاخسانہ ہے۔ ہماری دوست اور 'ڈان' کی کالم نگار،'زہرہ ناصر' کا کہنا ہے کہ یہ 'ایشین براؤن کلاؤڈ' ہے۔ جس کی وجہ صنعتی آلودگی ہے۔ کچھ دوستوں نے اسے قربِ قیامت کی نشانی بتایا۔ کوئی دور کی کوڑی لایا کہ ہندوستان نے کوئی کیمیائی ہتھیار چلایا ہے۔

لاہور

،تصویر کا ذریعہAP

،تصویر کا کیپشنلاہور کی مشہور بادشاہی مسجد بھی اس آلودہ دھند میں چھپ کر رہ گئی ہے

دو روز تک جب سب خوب دہل دہلا چکے اور افواہوں نے سہمے ہوئے لوگوں کو مزید سہما دیا تو پنجاب کے مشیرِ صحت نے انکشاف کیا کہ یہ 'سموگ' ہے اور اس سے بچنے کے لیے فلاں فلاں احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ سکولوں میں چھٹیاں کرنے پر بھی غور کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

چھپکلیوں کے ذکر پہ یاد آیا کہ ایک زمانے میں اس دنیا پر، ان چھپکلیوں کے رشتے دار راج کیا کرتے تھے۔ پھر مبینہ طور پہ ایک شہابیے کے گرنے سے گرد کا ایسا بادل اٹھا کہ دھوپ غائب ہو گئی۔

دھوپ غائب ہونے سے پودے اگنے ختم ہوئے، پہلے سبزی خور اور پھر گوشت خور فاقوں سے مر گئے۔ جب غبار کا بادل چھٹا تو ڈائنوسارز کا دور ختم ہو چکا تھا۔

میں تو ایک عام کاشت کار ہوں۔ مگر اتنا اندازہ تو مجھے بھی ہے کہ دھوپ غائب ہونے سے فی ایکڑ پیداوار بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

کچھ عرصہ پہلے بڑی خاموشی سے ساہیوال کول پاور پلانٹ لگا دیا گیا۔ اس کے ارد گرد پھیلی دنیا کی زرخیز ترین زمینوں (جو پہلے بھی ایک ایسے ہی فیصلے سے راتوں رات نہری سے چاہی ہو گئی تھیں) کے لیے دھوپ بھی کہیں سے پیکٹوں میں بند درآمد کی جائے گی؟

سموگ

،تصویر کا ذریعہAFP

اگر یہ دھند نما دھواں، جس کے بارے میں ہمارے بزرج مہر پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگلے دو ماہ رہے گا، واقعی برقرار رہا تو ربیع کی فصل شدید متاثر ہوگی۔ جنوبی پنجاب کے کسان پہلے ہی شدید بدحالی کا شکار ہیں، یہ دھچکا وہ یقیناً نہیں سہہ پائیں گے۔ قہرِ درویش برجانِ درویش، بھارتی پنجاب کی طرح یہاں بھی خود کشی کا رجحان زور پکڑ لے گا۔

اگر اس دھند کی وجہ واقعی دھان کے ٹھنٹھ کو لگائی گئی آگ تھی تو اس کا سدِ باب کرنا ضروری ہے۔ یوں بھی اس آگ سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوتی ہے۔ مکئی اور دھان کی فصل کی باقیات کو اگر کتر کے زمین ہی میں دبا دیا جائے تو اس سے آلودگی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور زمین کو بھی نامیاتی مواد ملے گا، جس سے جڑوں کو آکسیجن کی بہتر فراہمی ممکن ہو گی۔

آلودگی کی دیگر وجوہات پہ بھی قابو پانے کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے لیے دونوں ملکوں کے ماہرین کو مل کر کام کرنا چاہیے ورنہ ڈائنوسار کی طرح ہماری کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہو گی کہ پہلے سبزی خور مرے، پھر گوشت خور اور جب گرد چھٹی تو ان کی نسل معدوم ہو چکی تھی۔