سزائے موت کے خلاف لاہور میں احتجاجی مظاہرہ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا مطالبہ کیا۔

لاہور پریس کلب کے سامنے منعقدہ احتجاجی مظاہرے کی قیادت انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل آئی اے رحمان نے کی۔

لاہور سے مقامی صحافی عبدالناصر نے بتایا کہ مظاہرے میں شریک افراد نے موت کی سزا کے خلاف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن موت کی سزا ختم کرنے اور اس پر پاکستان میں جاری عمل درآمد فوری طور پر روکنے کے مطالبات درج تھے۔

پلے کارڈز پر لکھا تھا کہ ’سزائے موت لوگوں کو مارتی ہے جرائم کو نہیں‘، ’موت کی سزا منصفانہ نہیں‘، ’ریاست کا کام قتل نہیں، حفاظت ہے‘، ’موت کی سزا،انصاف کا اسقاط ہے‘۔

ایک پلے کارڈ پر ذہنی مریض قیدی کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا بھی مطالبہ درج تھا۔

انسانی حقوق کمیشن کے مطابق سنہ 2014 میں سزائے موت پر عمل درآمد کے دوبارہ آغاز کے بعد سے اب تک پاکستان میں 425 افراد کو پھانسی کی سزائیں دی جاچکی ہیں جبکہ صرف 2015ء میں 333 افراد کو موت کی سزائیں دی گئیں جس سے پاکستان موت کی سزائیں دینے والے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کے مطابق عدالتیں بھی بڑی تیزی کے ساتھ مجرموں کوُموت کی سزائیں سنا رہے ہیں اور سنہ 2014 میں 225 اور سنہ 2015 میں 411 افراد کو سزائیں سنائی گئیں جبکہ سنہ 2016 میں ستمبر تک 301 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزائیں سنائی ہیں۔

مظاہرین سے خطاب میں آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ ’سوچنے کی بات ہے کہ جب سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت سزائے موت پر عمل درآمد شروع کیا گیا ہے کیا موت کی سزائیں دینے سے مقاصد حاصل کیے جاسکے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں تفتیش کے معیار، پولیس کی کرپشن اور مہنگے نظام انصاف کو دیکھتے ہوئے سزائے موت دیے جانے سے خدشات اور بھی بڑھ جاتے ہیں اس لیے پاکستان میں موت کی سزا ختم کی جائے اور سزائے موت پر پابندی لگا کر فوری طور جاری عمل درآمد روک دیا جائے۔