ورکنگ باؤنڈری پر پاکستانی دیہاتی رات کو نقل مکانی پر مجبور

- مصنف, شہزاد ملک
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، شکر گڑھ
'او بشیراں، او زینب، او حبیب، او شفیق، او سخاوت، مغرب دی اذان ہو گئی جے، جلدی کرو، گھروں نکلو ورنہ دشمن دی کسی گولی دا نشانہ بن جاواں گے۔'
یہ آواز دینے والا شخص شکرگڑھ میں ورکنگ باونڈری سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں سکمال کا رہائشی 50 سالہ نذیر احمد ہے جو گلی کے کونے میں اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ کھڑا اپنے گھر والوں کی آمد کا منتظر ہے۔
تنبیہ اور خدشے بھرا پیغام دینے والے نذیر احمد کے چہرے پر پریشانی کے آثار نہیں کیونکہ سکمال سمیت ورکنگ باؤنڈری کے قریبی علاقوں میں عارضی نقل مکانی کا عمل گذشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے۔
آج کل سکمال میں ڈوبتا سورج یہاں کے مکینوں کے لیے نقل مکانی کا پیغام لاتا ہے۔
نذیر احمد اکیلا ہی اپنے بچوں کو آوازیں نہیں دے رہا تھا بلکہ 500 گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں کے دوسرے افراد بھی سورج غروب ہونے کے بعد اپنے اُن گھروں کو چھوڑنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔

اس نقل مکانی کی وجہ اس گاؤں کا محل وقوع ہے۔ سکمال ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں سے ورکنگ باؤنڈری ختم اور کشمیر کو تقسیم کرنے والی متنازع لائن آف کنٹرول شروع ہوتی ہے۔
اس علاقے سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی طرف جانے والی سڑک کو اونچائی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ واحد سڑک ہے جہاں سے انڈیا سیاچن میں تعینات اپنے فوجیوں کو خوراک اور دوسرا سامان پہنچاتا ہے۔
اس گاؤں کے پاس رینجرز کی چوکی بھی موجود ہے جہاں پر مسلح اہلکار ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
رینجرز کی طرف سے ان دیہاتیوں کو مکانات خالی کرنے کو نہیں کہا گیا۔ تاہم بڑے بھائی مسرور سے شروع ہونے والی ورکنگ باؤنڈری سے لے کر لائن آف کنٹرول کے پاس سرکاری حکام کے مطابق 100 سے زیادہ چھوٹے بڑے دیہات ہیں اور جو گاؤں فائرنگ رینج کے اندرآتے ہیں وہ اپنی مدد آپ کے تحت عارضی نقل مکانی کرتے ہیں۔
سکمال کے لوگوں کا ذریعۂ معاش کھیتی باڑی اور مویشی بانی ہے اور سکمال اُن چند دیہات میں سے ایک ہے جہاں گذشتہ برس بھارتی افواج کی فائرنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے تھے۔

ان دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی اور پھر لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے کے بعد سے حفظِ ما تقدم کے طور پر غروبِ آفتاب کے بعد اپنے گھر بار چھوڑ دیتے ہیں اور رات چند کلومیٹر کے فاصلے پر رہائش پذیر اپنے دیگر رشتہ داروں کے ہاں گزارتے ہیں۔
لیکن نذیر جیسے بہت سے ایسے افراد ہیں جن کے رشتہ دار قریبی علاقے میں مقیم نہیں اور ایسے افراد کی شب بسری نسبتاً محفوظ مقام پر کھلے آسمان تلے اپنے اہلِخانہ اور مویشیوں کے ہمراہ ہوتی ہے۔
نذیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے جیسے دیگر افراد کے ہمراہ روزانہ بارہ سے پندرہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارضی نقل مکانی ان کے روز کے معمول کا حصہ بن گئی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اُن کے دو بچے گاؤں میں واقع سکول میں پڑھتے ہیں اس لیے صبح کی اذان کے ساتھ ہی ان لوگوں کی اپنے گھروں کو واپسی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
سورج نکلنے کے ساتھ ہی مرد اور عورتیں اپنے معمول کے کام کاج میں ایسے مصروف ہوجاتے ہیں کہ کہیں سے بھی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ یہاں کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔
دونوں ملکوں کے حالات جیسے بھی ہوں لیکن ورکنگ باؤنڈری کے قریب رہنے والے ان افراد کے طرزِ زندگی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر مستقل بنیادوں پر ان علاقوں کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔








