|
پاکستان میں زلزلوں کی تاریخ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
دنیا میں زلزلوں کی تاریخ کے جو بیس بڑے بھونچال آئے ہیں ان میں سے صرف ایک پاکستان میں آیا ہے جو انیس سو پینتیس میں کوئٹہ میں آنے والا زلزلہ تھا جس سے یہ شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا اور امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس کے نتیجہ میں ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان میں زیادہ زلزلے شمال اور مغرب کے علاقوں میں آتے ہیں جہاں زمین کی سطح کے نیچے موجود غیر یکساں تہیں یعنی انڈین ٹیکٹونک پلیٹ ایرانی اور افغانی یوریشین ٹیکٹونک پلیٹوں کے ساتھ ملتی ہے۔ زیر زمین تہ جسے انڈین پلیٹ کہا جاتا ہے بھارت، پاکستان اور نیپال کے نیچے سے گزرتی ہے۔ انڈین پلیٹ اور یوریشین پلیٹ کے ٹکراؤ کے نتیجہ میں ہی ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے تھے۔ پاکستان میں جن علاقوں میں زلزلہ آنے کا سب سے زیادہ امکان ہے وہ وہ کوئٹہ سے افغانستان کی سرحد تک پھیلا ہوا علاقہ اور مکران کے ساحل کا علاقہ ہے جو ایرانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسرے کوہ ہندوکش سے نکلنے والے زلزلہ شمالی علاقہ جات اور صوبہ سرحد کو متاثر کرتے ہیں۔ محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر صلاح الدین کے مطابق آج آٹھ اکتوبر کے بھونچال کا مرکز کشمیر میں تھا اور یہ زیادہ گہرائی میں نہیں تھا اس لیے کشمیر میں اس سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اگر زلزلہ کا مرکز کم گہرائی میں ہو تو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق آج ہفتہ کے روز کا زلزلہ اسلام آباد سے پچانوے کلومیٹر دور کشمیر میں زمین میں صرف دس کلومیٹر گہرائی میں پیدا ہوا اور انڈین پلیٹ کے یوریشین پلیٹ کو دھکیلنے کے باعث اُچھال پیدا ہونے سے پیدا ہوا۔ کشمیر کے علاقہ میں اس دفعہ زلزلہ کا جو مرکز بنا ہے یہاں پر محکمہ موسمیات کے مطابق چھوٹے چھوٹے زلزلے تو آتے رہتے ہیں جنہیں محسوس نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کی شدت رکٹر اسکیل پر تقریباً چار ہوتی تھی تاہم اس بار اس کی شدت سات سے زیادہ تھی۔ اس سے پہلے سنہ دو ہزار دو اور سنہ انیس سو اکیاسی میں کشمیر کے علاقہ میں زلزلے آئے تھے۔ پاکستان کے علاقہ میں اس صدی کا سب سے بڑا زلزلہ تیس مئی انیس سو پینتالیس میں کوئٹہ میں آیا تھا جس میں تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور کوئٹہ شہر تباہ ہوگیا تھا۔ اس کی شدت رکٹر اسکیل پر آٹھ اعشاریہ ایک تھی۔ موجودہ زلزلہ سے پہلے بیس نومبر سنہ دو ہزار دو کو گلگت کے علاقہ میں زلزلہ آیا تھا جس سے گلگت میں تئیس افراد ہلاک ہوئے تھے، گلگت اور اسطور میں خشف زمین (لینڈ سلائڈ) سے پندرہ ہزار لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ تین نومبر سنہ دو ہزار دو میں گلگت اور اسطور کے علاقہ میں آنے والا زلزلہ پشاور، اسلام آباد اور سری نگر تک محسوس کیا گیا تھا جس سے شاہراہ قراقرم بند ہوگئی تھی۔ اس سے سترہ افراد ہلاک اور پینسٹھ زخمی ہوگئے تھے جبکہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ یکم نومبر سنہ دو ہزار دو میں گلگت اور اسطور کے علاقہ میں ہی ایک زلزلہ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا تھا جبکہ شاہراہ قراقرم بند ہوگئی تھی۔ چھبیس جنوری سنہ دو ہزار ایک کو بھارت کے صوبہ گجرات میں جنم لینے والے زلزلہ سے جنوبی پاکستان کے کچھ کے علاقہ میں بیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ستائیس فروری انیس سو ستانوے میں بلوچستان میں ہرنائی کے مقام پر ایک بڑی شدت کا زلزلہ آیا جس سے کوئٹہ، ہرنائی اور سبی میں خشف زمین (لینڈ سلائڈ) سے پچاس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ زلزلہ وسطی بلوچستانمیں محسوس کیا گیا تھا۔ نو اگست انیس سو ترانوے کو کوہ ہندوکش سے جنم لینا والے ایک بڑے زلزلہ نے وسطی ایشیا سے ملتان تک کے لعاقہ کو متاثر کیا لیکن اس کا مرکز بہت گہرائی میں تھا جس وجہ سے زندگی زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔ اکتیس جنوری انیس سو اکیانوے کو کوہ ہندوکش میں زلزلہ آنے سے افغانستان میں ننگر ہار اور بدخشاں کے علاقوں میں دو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ پاکستان کے شمالی علاقوں خصوصا چترال میں تین سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ انتیس جولائی انیس سو پچاسی کو کوہ ہندوکش ہی میں ایک بڑا زلزلہ (رکٹر اسکیل پر سات اعشاریہ ایک) آیا جس سے سوات اور چترال کے ضلعوں میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ زلزلہ پنجاب میں بھی محسوس کیا گیا تھا۔ تیس دسمبر انیس سو تراسی کو کوہ ہندوکش میں ایک بڑے زلزلہ سے شمالی پاکستان میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ بارہ ستمبر انیس سو اکیاسی کو گلگت میں آنے والے ایک بڑے زلزلہ سے دو سے زیادہ افراد ہلاک اور ڈھائی ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ اٹھائیس دسمبر سنہ انیس سو چوہتر میں مالاکنڈ کے شمال مشرق میں آنے والے زلزلہ سے پانچ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ستائیس نومبر انیس سو پینتالیس کو بلوچستان کے ساحل مکران میں جنم لینے والے ایک بڑے زلزلہ سے دو ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے اور سنامی پیدا ہوئی تھی جس نے ممبئی کو بھی متاثر کیا تھا۔ اکیس نومبر انیس سو پینتیس کو کوئٹہ میں جنم لینے والے زلزلہ سے تیس ہزار سے ساٹھ ہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے اور کوئٹہ شہر تقریبا مکمل طور پر تباہ ہوگیاتھا۔ یہ زلزلہ بہت کم گہرائی میں پیدا ہوا تھا اس لیے اس سے اتنی تباہی ہوئی۔سنہ اٹھارہ سو ستائیس اور انیس سو اکتیس کے درمیان بلوچستان کےمختلف علاقوں میں نو مختلف زلزلے آیے۔ چھبیس ستمبر اٹھارہ سو ستائیس کو لاہور کے قریب زلزلہ کا مرکز بنا جس سے ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ سولہ جون اٹھارہ سو انیس کو جنوبی پنجاب اور بھارت کے علاقہ کچھ میں آنے والے زلزلہ سے بتیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور جنوبی پنجاب کے درجنوں قصبے اور دیہات تباہ ہوگئے تھے۔ یہاں پر نوے کلومیٹر تک زمین کی پٹی زلزلہ کی شدت سے سطح سے چار فٹ بلند ہوگئی تھی۔ یہ زلزلہ اللہ بند نامی فالٹ لائن (دو غیر مساوی زمین کی زیریں تہوں کے ملنے کا مقام) سے پیدا ہوا تھا۔ اسی فالٹ لائن سے کسی زمانے میں بھنبور شہر تباہ ہوا تھا۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||