|
روسیوں کا امریکی سینٹ پر غصہ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
روسی سیاستدان ولادیمیر زیرینوفسکی نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ اس نے صدام حسین سے رشوت لی تھی۔ امریکی سینیٹ کی کمیٹی نے روسی سیاستدانوں پر سابق عراقی رہنما صدام حسین سے رقوم حاصل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ امریکی سینیٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدام حسین نے ان سیاستدانوں کو یہ رقوم عراق پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹانے میں روسی حکومت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دی تھیں۔ روس کے نائب وزیر اعظم یوری فیدو توو نے روسی خبر رساں ادارے انٹرفیکس کو بتایا کہ روس کے کوئی ایسی شہادت موجود نہیں ہے جو امریکی سینٹ کی کمیٹی کے الزامات کی تائید کرتی ہو۔ سینٹ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس کی معلومات کا ذریعہ عراقی حکومت کے عہدے دار ہیں۔ ولادیمیر زیرینوفسکی نے امریکی الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عراقی تیل کا ایک قطرہ تک نہیں دیکھا اور نہ ہی انہوں نے کسی ایسے معائدے پر دستخط کیے۔ دلادیمیر زیرینوفسکی نے عراق تیل سے ایک پینی بھی حاصل نہیں کی ہے اور امریکی الزامات لغو ہیں۔ روسی وزارت خارجہ نے اس وقت تک امریکی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے جب تک اقوام متحدہ کی طرف سے قائم کی جانے والی کمیٹی اس معاملے پر اپنی حتمی رپورٹ پیش نہیں کر دیتی۔ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے تیل برائے خوراک پروگرام کے تحت فروخت ہونے والے عراقی تیل کا تیس فیصد حصہ روس کو جاتا تھا۔
دونوں رہنماؤں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ جارج گیلوے نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس تازہ رپورٹ سے پہلے بھی امریکی سینیٹ اور اقوام متحدہ کی طرف سے امریکی مرکزی بینک کے سابق اہلکار پل وولکر کی سربراہی میں قائم پینل کی طرف سے اس معاملے پر رپورٹیں آ چکی ہیں۔ رپورٹ میں اس سلسلے میں صدر ولادیمیر پوتین کے سابق مشیر الیگزینڈر وولوشن اور سرگئی ایساکوف اور قوم پرست رکن پارلیمان ولادیمیر زیرینوفسکی کا نام لیا گیا ہے۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||