|
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
جنوبی وزیرستان: چار پاکستانی فوجی ہلاک
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک فوجی کیمپ پر راکٹ حملے میں چار فوجی جوان ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے کا جمعرات کے روز اسی ایجنسی میں فوجی کاروائی سے تعلق نہیں۔ مسلح افواج کے محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل شوکت سلطان کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد نے کل رات گئے صدر مقام وانا میں فوجی کیمپ پر راکٹ داغے جن سے دو فوجی موقعے پر ہلاک جبکہ دو شدید زخمی ہوئے تھے۔ تازہ اطلاع کے مطابق دو زخمی بھی بعد میں چل بسے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ رات دس بجے کے بعد سے راکٹ داغنے کا سلسلہ شروع ہوا جو رات گئے تک جاری رہا۔ ماضی میں بھی اس علاقے میں سرکاری اہداف پر راکٹ حملے ہوچکے ہیں۔
حکام نے کل وانا میں احمدزئی وزیر قبیلے کا ایک جرگہ بلایا ہے جس میں توقع ہے کہ ان قبائلیوں کو حکومت کی جانب سے سخت وارننگ دی جائے گی اور ان راکٹ حملوں میں ملوث افراد کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ شوکت سلطان نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ ان حملوں میں کون لوگ ملوث ہوسکتے ہیں تاہم بتایا کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں جمعرات کے روز پاکستانی فوج کی القاعدہ اور طالبان کے مشتبہ افراد کے خلاف کاروائی کی تھی۔ مبصرین کے خیال میں وہ بظاہر غیرموثر ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس میں نا تو حکام کے ہاتھ کوئی غیرملکی اور نہ ہی ان کو مبینہ طور پر پناہ دینے والے قبائلی آیا ہے۔
اس سے لوگ اُن خفیہ معلومات پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں جن کی بنیاد پر اتنی بڑی کاروائی شروع کی گئی۔ ماضی میں بھی شمالی اور جنوبی دونوں وزیرستان میں اس قسم کے آپریشن ہوچکے ہیں جن میں مشتبہ افراد یا تو وہاں تھے ہی نہیں یا پھر پہلے معلومات ملتے ہی وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ البتہ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ یہ تلاشی کی کاروائی تھی اور اکتوبر کی کاروائی سے مختلف تھی۔ اس بیان سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اس کاروائی کا مقصد غیرملکیوں کی گرفتاری سے زیادہ اپنے ملک کے قبائلیوں کو ایک سنگل دینا تھا کہ جو بھی حکومت سے ان مشتبہ افراد کو حوالے کرنے میں تعاون نہیں کرے گا ان کی املاک کا وہی حال ہوگا جو یارگل خیل قبیلے کے چار افراد کا جعمرات کو ہوا۔ ساتھ میں امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری پر بھی واضح کرنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکی اور افغان حکام پاکستان پر سرحد پار مشتبہ طالبان کے حملے روکنے کے لئے مزید اقدامات کا مطالبہ کرتے رہیں ہیں۔ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کاروائیاں اہداف کے حصول تک جاری رہے گی۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||