|
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
کشمیر کے بدلے لتا اور انصاف پچپن سال ہوگئے ہمیں لڑتے بھڑتے، مرتے کھپتے، اور لتامنگیشکر پچھتر سال کی ہوگئیں۔ ’لتا ہمیں دیدو اور کشمیر لے لو‘ کسی امن اور آرٹ سے محبت کرنے والے پاکستانی نے ہندوستانیوں سے کہا تھا۔ ذرا سوچیں تو یہ سودا مہنگا نہیں، لیکن معلوم نہیں کہ پاکستان کو ایسا سودہ کرنے کا واقعی کوئی حق حاصل ہے یا نہیں؟ ’تیرے گیتوں کے سہارے، بیتے ہیں دن رات ہمارے گر یہ تیری آواز نہ ہوتی، زینت کبھی آسان نہ ہوتی‘ حیدرآباد (سندھ) کی سنٹرل جیل میں اپنی قید کے دنوں میں حبیب جالب نے کہا تھا کہ پوکھراں اور چاغی میں نیوکلیئر دھماکوں کی گھن گرج اور دہلی اور اسلام آباد میں فوجی بوٹوں کی چمک دمک پر فتح پاتی ہوئی لتاجی کی آواز: ’ہم بھٹکتے ہیں، کیوں بھٹتے ہیں دشت و صحرا میں؟‘ میں نے بہت سے پاکستایوں اور ہندوستانیوں کو گاندھی اور جناح کو گالیاں دیتے سنا ہے لیکن کسی ایک بھی پاکستانی یا ہندوستانی کی زبان سے لتا کو برا بھلہ کہتے آجتک نہیں سنا۔ اور ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ’لتاجی کے گلے میں بھگوان بستا ہے۔‘ لیکن میں کہتا ہوں اگر برصغیر کے بھگوان یا خدا (جو کچھ بھی کہیں) میں لتا بستی ہوتیں تو شاید برصغیر بڑی سکھ اور شانتی کی جگہ ہوتی۔ لیکن اب وہاں پنڈت اور مولوی کے بھاشن اور فوجیوں کے کاشن چلتے ہیں۔ میں نے پرانے برسوں کے سندھی مردوں سے یہ مشہور بات سنی ہے کہ پاکستان کے سینماؤں میں ہندوستانی فلمیں دکھائے جانے والے دنوں میں ضلع بدین کے ماتلی شہر میں جب فلم ’مغل اعظم‘ دکھائی گئی تھی تو لتاجی کے گانے ’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ سن کر بہت سی لڑکیاں اپنے گھروں سے بھاگ نکلی تھیں۔ اب تو پاکستان میں سینماؤں کا حال اسمبلی ہالوں سے بھی گیا گزرا ہے۔ مگر وہاں کے پرانے فلمبینوں کو اب بھی یاد ہے کہ شمیم آرا کی فلم ’سالگرہ‘ میں وحید مراد کے بچپن کا کردار جس بچے نے ادا کیا تھا وہ آج کا آصف زرداری تھا۔ اس بچے کو فلم میں کردار ادا کرنے کا’چانس‘ اس لئے مل سکا تھا کیونکہ وہ کراچی کی بمبینو سینما کے مالک کا بیٹا تھا۔ کس نے جانا تھا کہ کل کا یہ آصف علی زرداری پاکستانی سیاست کا ’ضدی بچہ‘ بن جائیگا اور اپنی عمر کی بیشتر سالگراہیں جیل میں گزارے گا، اور پاکستانی ٹرک ڈرائیوروں کے اس پسندیدہ شعر کو تھوڑی ترمیم کے ساتھ کہ ’سنٹرل جیل سے بچ گیا تو پرائیم منسٹر ہاؤس ہے‘ کو اپنے مقدر کا لکھا سمجھنے لگے گا۔ پاکستانی ’جہان خانی‘ انصاف کی کیا بات کیجئے کہ جہاں آصف علی زرداری ہر موسم میں جیل کا پنچھی ہے، بینظیر بھٹو اور نوازشریف اپنے وطن نہیں لوٹ سکتے، لیاقت جتوئی قومی اسمبلی کے فلور پر سینہ ٹھونک کر اپنے ہی حزب اقتدار کے ساتھیوں کے سامنے اپنے آپ کو ’احتساب‘ کے لئے پیش کرتا ہے اور جہاں عرفان اللہ مروت جیسے لوگ بریف کیس ہلاتے ہوئے ایئر پورٹوں سے باہر نکلتے اور اندر داخل ہوتے ہیں اور’ کاروکاری‘ پر سیمیناروں کی صدارت کرتے ہیں۔ مجھے اس پر پاکستان کا وہ اہل دل بڈھا پارسی کالم نویس اردشیر کاوسجی یاد آتا ہے جس نے کہا تھا ’سالہ چور جب چوری کرتا ہے تو کیا رسید چھوڑتا ہے؟‘ اب پاکستان کے صوبہ سندھ میں عرفان اللہ مروت وزیرتعلیم اور سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمن ہیں۔ کیا آپ پاکستانی حکمرانوں سے کسی لحاظِ ادب کی توقع کر سکتے ہیں؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے غلام مصطفیٰ کھر یا چوہدری شجاعت کو پنجابی ادبی بورڈ کا چیئرمن بنایا جائے یا جنرل پنوشے کو یونیسکو، یا بال ٹھاکرے کو ساھیتہ اکادمی کا سربراہ مقرر کیا جائے۔ ایک سندھی سادہ لوح شخص کے بقول کہ ’جیسے گیدڑ کو مرغیوں کا رکھوالا بنا دیا جائے‘۔ مگر یہ سندھ ہے کہ جہاں کے آسمان پر خدا اور جنگلوں میں ڈاکو اور کچے میں سور، سردار اور وڈیرے بستے ہیں۔ مگر سندھ اب اس اہلِ دل بڈھے کالم نگار کاوسجی اور پیار کی شادی پر اپنی برادری کے مطعون عبدالستار ایدھی اور میرے دوست جاوید قاضی کی مقروض ہے جنہوں نے اس کی (سندھ کی) بیٹی شائستہ عالمانی کو سرداروں، وڈیروں اور قبائیل کے خونخوار انائوں اور روایتوں سے بچالیا۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||