http://www.bbc.com/urdu/

علی احمد خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ایبٹ آباد

کالاباغ: فریقین میں اعتماد کا فقدان

پاکستان میں ایک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے کے مصداق ایک بحث ختم نہیں ہوتی اور دوسری شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ آج سے نہیں ، ہمیشہ سے جاری ہے۔

پاکستان بنتے ہی یہ بحث شروع ہوگئی کہ یہ اسلام کی ترویج کے لیے بنا ہے یا برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق کے تحفظ کے لیے اور یہ بحث آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، کبھی شدت اختیار کرلیتی ہے کبھی مدھم پڑجاتی ہے، نہ ختم ہوتی ہے نہ اس کا کوئی حل نکلتا ہے۔

اسی طرح پاکستان بنتے ہی آئین کی بحث شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے حالانکہ اب تک ماشااللہ کوئی تین آئین آ چکے ہیں اور ٹوٹ چکے ہیں اور ایک جو فی الحال نافذ تصور کیا جاتا ہے وہ بھی ثقیل غذا کی طرح بعض لوگوں کے معدوں میں گرانی کا سبب بنا ہوا ہے۔

آج کل جو بحث چلی ہوئی ہے وہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ہے۔ کہتے ہیں کہ 1950 کے عشرے کے ابتدائی مراحل میں منظر عام پر آیا تھا لیکن بیچ میں کچھ اور دلچسپ موضوعات آتے گئے، اس لیے اٹھ اٹھ کر دبتا رہا اور اب جو 53 سال کے بعد اٹھا ہے تو اس شدت سے اٹھا ہے کہ 8 اکتوبر کا زلزلہ ماند پڑتا دکھائی دے رہا ہے، بلکہ بعض لوگوں کا تو کہنا ہی یہ ہے کہ زلزلے سے متعلق حکومت پر جو تنقید ہورہی تھی اس سے توجہ ہٹانے کے لیے ہی یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔

کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ کشمیر کے مسئلے پر حکومت کوئی ایسی بات کرنے جا رہی ہےجو پاکستان کے روایتی موقف سے مطابقت نہیں رکھتی اس لیے عوام کو اس قضیے میں الجھا دیا گیا ہے۔

اب مشکل یہ ہے کہ کوئی ایسا ذریعہ بھی نہیں ہے جس سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ آخر اس مسئلے کو اچانک اتنی اہمیت کیسے حاصل ہوگئی جبکہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کا کام شروع کیا جانے والا ہے اور جو فی الوقت پاکستان میں انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔

اچھا پاکستان میں یہ بھی ایک بڑی مشکل ہے کہ جیسے سیاستداں، اگر اقتدار میں ہیں تو حب الوطنی، ان کی میراث قرار پاتی ہے اور اگر اقتدار سے باہر ہیں تو ان کے خلاف میر جعفر اور میر صادق سے کم کوئی الزام ہی عائد نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح ہر منصوبے کےحامیوں اور مخالفین کا رویہ بھی یہی ہوتا ہے۔
چنانچہ کالا باغ ڈیم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اگر نہیں بنا تو سندھ ریگستان میں تبدیل ہوجائے گا۔ ادھر مخالفین کا خیال ہے کہ اگر بن گیا تو پاکستان ہی ٹوٹ جائے گا۔

اب ہما شما جو بیچارے صرف اتنا ہی سمجھ سکتے ہیں کہ نل سے پانی آ رہا ہے یا نہیں۔ ان کی بے بسی کا اندازہ کیجیے۔ اگر کالا باغ ڈیم کی حمایت کریں تو ملک کے ٹوٹنے کا خطرہ ہے اور اگر نہ کریں تو ملک ریگستان بن جائے گا۔ ان کے دل دہلانے کے لیے ان دونوں صورتوں کا تصور ہی کافی ہے۔

یہ اس ملک میں ہوتا نہیں ہے کہ اگر بحث چھڑی ہے تو ایک دوسرے کے موقف کو غور سے سنا جائے اور کسی ایسے نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے کہ جو ملک کے وسیع تر مفاد میں بھی ہو اور اس سے ہر دو فریق مطمئن بھی ہوجائیں۔

اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر حکومت کی جانب سے کوئی منصوبہ آتا تھا تو حکومت اور اس کے حامی دونوں اس کی حمایت میں نعرے لگاتے تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ نہ صرف حزب اختلاف بلکہ حکمراں جماعتیں بھی اس مسئلے پر آپس میں دست وگریبان نظر آتی ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر ارباب رحیم جو صدر پرویز مشرف کی ناک کا بال اور وزیراعظم شوکت عزیز کے محسن تصور کیے جاتے تھے اس مسئلے پر کچھ ایسے پھیلے ہیں کہ نہ صرف جناب صدر اور ان کے حامی بلکہ پورا سندھ انگشت بدندان ہے۔ یہاں تک کہ پیرپگاڑا بھی جو ڈیم کی مخالفت کر رہے تھے بالآخر رام ہوگئے لیکن وزیراعلیٰ تادم تحریر مخالفت پر ڈٹے ہوئے ہیں یہاں تک کہ وفاقی وزیراطلاعات شیخ رشید کو تنبیہ کرنی پڑی کہ ’غیر ذمہ دارارنہ بیانات سے گریز کیجیے‘ اور پیر پگاڑا تو دھمکی پر اتر آئے کہ سندھ اسمبلی صدر پرویز مشرف کی وجہ سے چل رہی ہے ورنہ اس مردہ ایوان کو تو کب کا تحلیل ہوجانا چاہیے تھا۔ حکومت میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے بھی کہہ دیا ہے کہ کالا باغ کے بارے میں فیصلہ اتفاق رائے سے کیا جائے۔

ادھر آگ پر تیل کا کام فنی ماہرین پر مشتمل کمیٹی کی رپورٹ نےکر دیا جس کے سربراہ جناب اے، این ،جی عباسی ہیں۔ رپورٹ کے جو اقتباسات ایک انگریزی روز نامے نے شائع کیے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی کالا باغ اور بھاشا سے زیادہ اسکردو۔ کتزرہ ڈیم کے حامی ہیں۔

اب اگر یہ صحیح ہے تو پھر حکومت اگر حزب اختلاف کی بات نہیں سننا چاہتی تو کم از کم اپنے ان ماہرین کی ہی بات مان لے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ فریقیں میں ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے۔

نہ ڈیم کے مخالفین صدر پرویز مشرف کی یقین دہانیوں پر یقین کرنے کے لئے تیارہیں نہ پرویز مشرف ان کے اعتراضات سننے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس اعتماد کی کمی کی وجہ سمجھ میں بھی آتی ہے اس لیے اس ملک میں جو بھی برسر اقتدار آیا اس نے اور کچھ کیا ہو یا نہیں ایسی حرکتیں ضرور کیں جو وعدہ خلافی تصور کی جاتی ہوں اور فرد ہو یا حکومت، ایک بار جب اعتماد اٹھ جائے تو پھر اس کو بحال کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اپنے پرویز مشرف صاحب جب اقتدار میں آئے تھے تو لوگوں نے ان سے بڑی امیدیں وابستہ کرلیں تھیں یہاں تک کہ اپنی بی بی بے نظیر نے بھی ان کا خیرمقدم کیا تھا اور متحدہ مجلس عمل نے تو ان کو صدر منتخب ہونے میں بھی مدد دی تھی لیکن صدر صاحب جب اپنے ان دوستوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مطمئن کر سکیں گے جنہوں نے شروع سے اب تک ان کی کسی بات پر یقین ہی نہیں کیا۔

اس دوران اپنے ایک ریٹائرڈ جسٹس نے ایک انتہائی صائب مشورہ دیا ہے کہ صدر اس موقع پر اپنی وردی اتارنے کا اعلان کردیں۔ میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر صاحب صدر اس مشورے پر عمل کریں تو شاید ان کے مخالفین کے دلوں میں کچھ ان کے لیے گنجائش پیدا ہوجائے اور وہ آبی ذخائر کی ضرورت کے بارے میں ان کی اپیلوں اور بیانات پر زیادہ سنجیدگی سے غور کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔