Saturday, 22 October, 2005, 14:08 GMT 19:08 PST
علی احمد خان
بی بی سی اردو سروس ایبٹ آباد
آٹھ اکتوبر کے بعد پہلا دن ہے کہ زلزلے کا کوئی جھٹکا محسوس نہیں ہوا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ زلزلہ آیا نہیں، ممکن ہے ان چوبیس گھنٹوں میں بھی آیا ہو، لیکن اتنا طاقتور نہیں تھا کہ محسوس ہوتا۔
ورنہ اس سے پہلے محکمہ موسمیات کی اطلاعات کے مطابق انیس اکتوبر تک سات سو چھیالیس جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے تھے یعنی روزآنہ کا اوسط کوئی 68 جھٹکے اور ان میں سے بعض اتنے طاقتور ہوتے کہ آدمی گھر سے باہر بھاگنے پر مجبور ہوجاتا۔ یہاں تک کہ میرا ایک دوسال کا بھتیجا بھی جو اب بھی صاف نہیں بول سکتا ’ آگیا‘ ، کہہ کر باہر کی طرف بھاگنا سیکھ گیاہے۔
یہ زلزلہ یا اسطرح کی دوسری آفات سماوی پر انسان کابس تو نہیں چلتا اور نہ چل سکتا ہے اس لیے کہ انسان اپنی بساط کے مطابق نیچر کی قوتوں کو مسخر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور بہت سوں پر قابو پانے میں کامیاب بھی ہوچکا ہے۔ لیکن یہ کائنات کچھ اتنی وسیع ہے اور اس میں اب بھی ایسی قوتیں پوشیدہ ہیں جن تک انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کوششوں کے باوجود رسائی حاصل نہیں کرسکا ہے اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی نہیں ہے، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ انسان اور نیچر کے درمیان اس رسہ کشی یا کشمکش کا کوئی انت نہیں ہے اور شاید اسی سے زندگی بھی عبارت ہے۔
تاہم ایک بات ضرور ہے کہ ان آفات سماوی کے نتیجے میں جہاں بڑے پیمانے پر تباہی اور ہلاکتیں ہوتی ہیں، وہاں انسانی خامیاں اور خوبیاں بھی سامنے آجاتی ہیں۔ ہر ایک کو انفرادی اور اجتماعی بنیاد پر اپنا جائزہ لینے اور اپنے آپ کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
اب آپ دیکھیں جب ہندوستانی ریاست گجرات میں زلزلہ آیا تھا یا امریکہ میں گزشتہ دنوں کٹرینا نامی طوفان آیا تو میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو بغلیں بجارہے تھے کہ گجرات کی مرلی منوہر حکومت کو ہندو مسلم فسادات کے سلسلے میں اور صدر بش کو عراق اور افغانستان پر حملے کے سلسلے میں یہ سزا ملی ہے۔
لیکن اب جو ہم پر یہ آفت آئی تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اللہ میاں کیوں ناراض ہوگئے، ممکن ہے اسی بات پر ناراض ہوگئے ہوں کہ ہم دوسروں کی مصیبت پر خوش کیوں ہوئے یا پھر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قدرتی قوّوتوں کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، وہ مندر مسجد کے جھگڑے میں نہیں پڑتیں، ہندو ہو یا مسلمان، کافر ہو یا اہل ایمان سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتی ہیں اورانسان کو بھی ان کا مقابلہ کرنے یا ان کو مسخر کرنے کےلیے اپنی تنگ نظری اور خود غرضیوں سے بالاتر ہوکر کوشش کرنی چاہیے۔
اس زلزلے سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پاکستان جوہری اسلحہ بنانے میں تو کامیاب ہوگیا اور بقول اس کے رہنماؤں کے، وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ایسے آلات اب بھی در آمد کرنے پر مجبور ہے جو آگ بجھانے، ملبہ ہٹانے یا ملبے کے نیچے دبے ہوئے لوگوں کو تلاش کرنے اور نکالنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ اسے ایسے آلات بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
پھر حکام ایسے فلیٹوں ، مکانات اور عمارتوں کی تعمیر روکنے میں بھی ناکام رہے ہیں جن کو بنانے والے عیش کرتے ہیں اور جن میں رہنے والے زلزلے کے ایک جھٹکے سے انکے ملبے کے نیچے دب کر مرجاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جوہری بم بھی بنانا چاہیے اور اس طرف بھی کچھ توجہ دینی چاہیے اس لیے کہ ہندوستان سے ابتک جو تین جنگیں ہوئی ہیں ان میں اتنے سارے لوگ ہلاک نہیں ہوئے ہیں جتنے اس زلزلے میں عمارتوں کے انہدام اور ان کا ملبے بروقت نہ ہٹائے جانے سے ہلاک ہوئے ہیں۔
اس زلزلے سے ایک اور بات سامنے آئی کہ اس قومی سانحے کے بارے میں بھی ہمارے حکمران اور حزب اختلاف کے رہنما کوئی مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حکمرانوں کی کوشش ہے کہ اس قومی سانحہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حزب اختلاف سے وہ باتیں بھی منوالیں جن سے وہ ابتک وہ انکاری رہے ہیں اور حزب اختلاف کا رویہ یہ ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر حکومت کو جتنا بدنام کر سکتی ہے کرے۔
عوام جہاں کے بھی ہوں وہ اپنے تجربے سے سیکھتے ہیں اور اس طرح کے ہی موقعوں پر انہیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ چنانچہ اگر وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف دونوں اپنی اپنی خود غرضیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں تو یہ بہت زیادہ غلط نہیں ہوگا۔
اس موقع پر ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو بھی موقع ملا تھا کہ وہ اپنی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کرتیں لیکن انہوں نے بھی اس المیے سے سفارتی فائدہ اٹھانے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم سب کچھ کرنے کو تیار ہیں، دوسرے فریق کے دل میں کھوٹ ہے۔ یہ رویہ میں سمجھتا ہوں دونوں ملکوں کے عوام کی خواہشات کے برعکس ہے۔
مجھے اس موقع پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق صدر سردار قیوم کی بات اچھی لگی کہ اگر ہندوستانی ہیلی کاپٹروں کو ان کے پائلٹوں سمیت قبول کرلیا جاتا تو وہ کیا بگاڑ لیتے اور اگر ہندوستانی حکومت صدر پرویز مشرف کی لائن آف کنٹرول کھولنے کی تجویزمن و عن قبول کرلیتی تو اس کا کیا بگڑ جاتا۔
اتنے بڑے المیے کا مقابلہ کرنے کےلیے بڑے دل کی بھی ضرورت ہے۔
دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسے میں اب تک پاکستان کے عوام نے جس یکجہتی اور جوش ولولے کا مظاہرہ کیا ہے وہ یقیناً قابل ستائش ہے لیکن اس جوش و ولولے کو قائم رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ رہنمایان کرام بھی، حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے، اپنی سیاسی موقع پرستی سے بالاتر ہوکر کام کریں۔
اس لیے کہ جو تباہی آنی تھی وہ تو آچکی اب ان تباہ حال لوگوں کی آبادکاری کا مسئلہ ہے۔ ایسا نہ ہو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی امداد کی شکل میں ہن برستا رہے اور حقدار ترستے رہیں۔