http://www.bbc.com/urdu/

Friday, 21 October, 2005, 13:35 GMT 18:35 PST

نیعمہ احمد مہجور
بی بی سی اردو، لندن

ایل او سی کھل بھی گئی تو۔ ۔ ۔!

بھارت کی حکومت نے حال ہی میں کشمیر میں کئی مقامات پر جب کئی ٹیلفون بوتھ قائم کیے تو ان لوگوں کی آنکھوں میں چمک لوٹ آئی جو گذشتہ بارہ روز سے سرکاری اہل کاروں کے دیوان خانوں کے چکر لگا کر ان سے سرحد پار اپنے رشتے داروں تک رسائی دلانے کی منتیں کر رہے تھے

وادی کے کئی صاحب حیثیت لوگوں نے زلزلے کے فورا بعد دلی اور بھارت کے دوسرے شہروں کا رخ کیا جہاں سے سرحد پار رشتے داروں سے ان کا حال معلوم کرنے میں کوئی پابندی نہیں۔

مگر جو لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر مٹی کے کوٹھوں میں مشکل سے گزر بسر کرتے رہے ہوں ان کے لیے ٹیلیفون کی سہولیات میسر رکھنا ایک معجزے سے کم نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بی ایس این ایل کے قائم کردہ چار ٹیلیفون بوتھوں میں سے لمبی قطاریں اوڑی یا ٹنگڈار میں دیکھی گئیں کیونکہ سرینگر اور اننت ناگ کے مقابلے میں ان علاقوں کے بیشتر خاندان تقریبا ساٹھ برسوں سے ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔

بھارت پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری دشمنی کی سب سے زیادہ سزا ان ہی خاندانوں نے بھگتی ہے ۔ جب بھی ان ملکوں کے مابین جنگ ہوئی یا تعلقات میں تلخی پیدا ہوئی پہلی ضرب لائن آف کنٹرول کے آر پار جدا ان خاندانوں پر پڑی۔ غرض ان کی زندگیاں ہمیشہ داؤ پر لگی رہیں کبھی سیاست کی وجہ سے تو کبھی موسم کے سبب۔
متاثر
سردیوں کے آتے ہی لوگ نقلِ مکانی کر جاتے ہیں لیکن اس بار ان کا سب کچھ تباہ ہو گیا ہے

لائن آف کنٹرول پر بیشتر ایسے لوگ آباد ہیں جن کی روزی روٹی کھیتی باڑی یا مال مویشی سے منسلک ہے۔ سردیوں میں اکثر خاندان اپنے مال مویشی لے کر میدانوں کی جانب چلے جاتے ہیں اور گرمیوں میں سکھائی ہوئی سبزیاں یا مال مویشی بیچ کر اپنا گزارہ کرتے ہیں ۔ اس بار بھی وہ جانے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ ناگہانی آفت نے ان کا سب کچھ تباہ کردیا۔

چھوٹے چھوٹے گاوں پر مشتمل ان علاقوں میں ابھی تک مشکل سے بجلی یا پانی کی سپلائی پہنچی ہے ٹیلیفون دور کی بات ہے۔ کسی کے ذریعے زبانی پیغام بھیجنا یا خط وکتابت ہی ابھی تک رابطے کے اہم ذریعے رہیے ہیں۔

دریاے نیلم یا جموں میں آڑ ایس پورہ کے آر پار اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض خاندان وہاں آکر اشاروں کنایوں سے اپنے رشتہ داروں کا حال دریافت کرتے ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے جب کشمیر میں لوگ اپنے رشتہ داروں کا حال جاننے کے لیے سرحد پار یا پاکستان کے شہروں میں محدود ٹیلفون بوتھوں پر بات کر سکتے ہیں۔

مجھے یاد ہے سن چھیانوے میں کشمیر میں انتخابات کے دوران لائن آف کنٹرول کے اوڑی سیکٹر میں ستر برس کے بزرگ نظام الدین نے لمبی آہ بھر کر کہا تھا ’ کاش میں اس پہاڑ کو گرتے دیکھتا۔ بنکر غائب ہوتے اور خود کو کسی پہرے دار کے بغیر اپنے بچھڑے بھائی سے ملتا پھر مجھے زندگی سے کوئی شکایت نہیں رہتی‘۔

زلزے کے چند روز بعد میں نے بڑی تگ ودو کے بعد ان کو ٹیلفون پر تلاش کیا اور پوچھا کہ کیا اپنے بھائی کی خیریت دریافت کی۔ انہوں نے کہا ’وہ پہاڑ گر گیا۔ بنکر بھی غائب ہوگیا ہے۔ میں نے بھائی کے گھر ٹیلیفون کیا تھا فون بج رہا ہے مگر شاید وہ ۔ ۔ ۔‘۔ اسکے بعد وہ فون پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔