BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Saturday, 15 October, 2005, 10:28 GMT 15:28 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
جھٹکے ہیں کہ رکتے ہی نہیں
 

 
 
 بارش میں بھیگتا بوڑھا شخص
متاثرہ علاقے میں سرد موسم مشکلات پیدا کر سکتا ہے
میں نے زندگی میں زلزلے کے بہت سے جھٹکے دیکھے اور سہے ہیں لیکن ایسا زلزلہ جس میں پیر ڈالو کہیں اور پڑے کہیں اور مکان ہلتا ہوا اور درخت جھومتے ہوئے نظر آئیں میں نے پہلی بار دیکھا اور یہ بھی کہ اب تک جو زلزلے میں نے محسوس کیے ہیں، وہ سو رہے ہیں تو جگا کر چلے جاتے تھے، بیٹھے ہوئے ہیں تو کھڑا کر دیتے تھے اور اگر کھڑے ہوئے ہیں تو دوڑا دیتےتھے۔

یہ پہلا زلزلہ ہے جس کے جھٹکے آٹھ دنوں سے وقفے وقفے سے جاری ہیں اور یہ جو کالم میں لکھ رہا ہوں اس میں اب تک دو بار بھاگ کر باہر جا چکا ہوں اور اس سے پہلے رات کو کوئی ایک بجے بھاگ کر باہر جا چکا ہوں۔ اس طرح گزشتہ کوئی آٹھ گھنٹوں میں تین جھٹکے سہہ چکا ہوں۔ مزید کی تمنا تو نہیں ہے لیکن خطرہ بہرحال ہے۔

  ابتدائی دنوں میں کوئی ایک ہزار مریض روز آرہے تھے اب اوسط کم ہو کر چار ساڑھے چار سو ہوگیا ہے۔ ان میں سے کوئی دو سو ایسے ہوتے ہیں جنہیں باہر بھیجنا پڑتا ہے باقی معمولی زخمی ہوتے ہیں ان کو مرہم پٹی کرکے فارغ کردیا جاتا ہے۔
 
کیپٹن ڈاکٹر ندیم

کل پھر ایبٹ آباد سے بالا کوٹ تک گیا یہ دیکھنے کے لیے کہ موت کے اس سناٹے میں زندگی کی رونقیں لوٹنی شروع ہوئی یا نہیں لیکن محسوس یہ ہوا انسان اللہ میاں کی مخلوقات میں اشرف ہو یا اسفل لیکن ہے بہت ڈھیٹ۔ حالات جیسے بھی ہوں سہار جاتا ہے، کہتے ہیں پہلے بڑے بڑے جانور ہوا کرتے تھے لیکن موسم کی تبدیلی یا اور کسی وجہ سے مٹ گئے لیکن انسان ہے کہ طوفان نوح کو بھی برداشت کرگیا اور قوم لوط کی تباہی کو بھی سہار گیا۔ غالباً اس کا یہی وصف ہے جو اللہ میاں کو اچھا لگتا ہے اور وہ اس طرح کی آفات نازل کر کے اس کا امتحان بھی لیتے رہتے ہیں۔

اس زلزلے کا پاکستانی قوم نے جس طرح مقابلہ کیا ہے وہ یقیناً قابل تحسین ہے۔ میں جتنی بار اس عرصے میں بالا کوٹ گیا ہوں میں نے سڑک پر امدادی سامان والے ٹرک اور دیگر گاڑیاں اتنی تعداد میں اتنے علاقوں کی دیکھی ہیں کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس ملک میں چار صوبے ہیں جو اپنے اپنے حقوق کے لئے لڑتے رہتے ہیں۔ یوں محسوس ہوا کہ انہیں آپس میں متحد کرنے اور یک جان دو قالب بنانے کے لیے بس اس ایک زلزلے کی ضرورت تھی۔

 انسان اللہ میاں کی مخلوقات میں اشرف ہو یا اسفل لیکن ہے بہت ڈھیٹ۔ حالات جیسے بھی ہوں سہار جاتا ہے، کہتے ہیں پہلے بڑے بڑے جانور ہوا کرتے تھے لیکن موسم کی تبدیلی یا اور کسی وجہ سے مٹ گئے لیکن انسان ہے کہ طوفان نوح کو بھی برداشت کرگیا اور قوم لوط کی تباہی کو بھی سہار گیا۔ غالباً اس کا یہی وصف ہے جو اللہ میاں کو اچھا لگتا ہے اور وہ اس طرح کی آفات نازل کر کے اس کا امتحان بھی لیتے رہتے ہیں۔
 

کل تک کی اطلاع یہ تھی کہ مانسہرہ کے ضلع میں جس میں بالاکوٹ بھی شامل ہے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کوئی سات ہزار اور زخمیوں کی دس ہزار تک پہنچ گئی ہے اور اس میں ہر لمحہ اضافہ ہورہا ہے۔

بالا کوٹ میں فوج ، فرانس اور پولینڈ کی طبی جماعتیں کام کر رہی ہیں اور ان کے پاس جو زخمی آرہے ہیں وہ بیشتر قرب وجوار کے پہاڑوں سے آرہے ہیں ان میں سے جو بہت زیادہ زخمی ہوتے ہیں انہیں مانسہرہ یا ایبٹ آباد بھیج دیا جاتا ہے۔ جو کم زخمی ہوتے ہیں ان کی مرہم پٹی کردی جاتی ہے۔

ایک فوجی ڈاکٹر کیپٹن ندیم نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں کوئی ایک ہزار مریض روز آرہے تھے اب اوسط کم ہو کر چار ساڑھے چار سو ہوگیا ہے۔ ان میں سے کوئی دو سو ایسے ہوتے ہیں جنہیں باہر بھیجنا پڑتا ہے باقی معمولی زخمی ہوتے ہیں ان کو مرہم پٹی کرکے فارغ کردیا جاتا ہے۔

ادھر بالاکوٹ میں عمارتوں کے ملبے میں زندوں کی تلاش کا کام اب تقریباً ختم کردیا گیا ہے اور ملبہ ہٹانے کا کام بھی اب نہیں ہورہا ہے۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کے یہ ملبے فی الحال اجتماعی قبروں کا کام دے رہے ہیں ، اگر انہیں اس وقت کھولا گیا تو تعفن پھیلنے کے علاوہ لاشوں کی تدفین وغیرہ کے مسئلے پیدا ہو جائیں گے۔

ایک فوجی میجر خالد ملے جو ارد گرد کے علاقوں کو کھانے پینے کی اشیا بھیجنے کے انچارج تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے خچر استعمال کیے جا رہے ہیں اور ان کے پاس پچاس خچر ہیں جو اس کام میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ خچر دکھائے بھی جو بڑی مستعدی سے کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہر چیز موجود ہے، صرف خیموں کی قلت ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جائے گا اس کی قلت شدت اختیار کرتی جائے گی۔ اس لیے کہ راتیں تو پہلے ہی ٹھنڈی ہوگنی تھیں اب دن بھی ٹھنڈے ہونے شروع ہوجائیں گے اور بارش بھی جو آج صبح بھی ہوئی اور مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔

جمعہ تک کی اطلاع کے مطابق کوئی ایک سو دو ٹرک امدادی سامان متاثرہ علاقوں کو روانہ کیا جا چکا ہے اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے97 ٹن سامان پہنچایا گیا ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اشیائےضرورت کی تقسیم میں جس نظم وضبط کی ضرورت ہے وہ قائم کرنے میں انتظامیہ اب تک ناکام رہی ہے۔

 مولوی حضرات نے بھی زلزلے کی وجوہات کے بارے میں اپنی اٹکل پچو لگانی شروع کردی ہے، ایک مولوی صاحب نے تو یہ بھی فرما دیا کہ لوگ اپنے ٹی وی سیٹ نذر آتش کردیں کہ اس میں فحاشی کا جو مظاہرہ ہوتا ہے اس سے ناراض ہوکر اللہ نے اپنا قہر نازل کیا ہے۔
 

اس موقع پر انسانی کمینگی کے بھی واقعات سننے میں آئے۔ مثلاً لوگوں نے خیموں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیاہے، کفن کے لیے استعمال ہونے والے لٹھے کی چور بازاری شروع ہوگئی ہے جبکہ دو نمبر دواؤں کی فروخت کی بھی اطلاعات ہیں۔

پھر مولوی حضرات نے بھی زلزلے کی وجوہات کے بارے میں اپنی اٹکل پچو لگانی شروع کردی ہے، ایک مولوی صاحب نے تو یہ بھی فرما دیا کہ لوگ اپنے ٹی وی سیٹ نذر آتش کردیں کہ اس میں فحاشی کا جو مظاہرہ ہوتا ہے اس سے ناراض ہوکر اللہ نے اپنا قہر نازل کیا ہے۔

یہ بڑے مزے کے لوگ ہوتے ہیں۔ 1965 کی جنگ میں ان لوگوں کا فرمانا تھا کہ ہندوستانی طیارے جو بم گراتے ہیں، فرشتے انہیں روک لیتے ہیں یا ان کی دم پکڑ کے دوسری طرف موڑ دیتے ہیں اور جب انسان چاند پر اترا تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ کسی اونچی جگہ پر ان کا سیارہ ٹک گیا ہوگا انہوں نے اس کو چاند سمجھ لیا۔

یوں لگتا ہے کہ انہوں نے اللہ کو قہار و جبار ہی ثابت کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اس کے رحمان اور رحیم ہونے پر ان کو کچھ زیادہ یقین نہیں ہے۔

بہرحال اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ ملک کی تمام مذہبی تنظیمیں اور ادارے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں نے بھی اس موقع پر حکومت پر نکتہ چینی کے بجائے اپنے عوام کی مدد امداد پر توجہ دی ہے۔

غرض کہ جہاں اس ملک میں سمگلر، منافع خور اور لوگوں کی مجبوری اور بیکسی سے فائدہ اٹھانے والے موجود ہیں وہاں بھاری اکثریت ایسے نیک ،خدا ترس اور دیانتدار لوگوں کی ہے جو انسانی اقدار کو ہر چیز پر مقدم جانتے ہیں۔

 
 
66ضبط کا امتحان
جب زمین پر جنت موت کی وادی بن گئی
 
 
49ایک بڑی سی قبر
ایک قبر ڈھونڈنے والے کے لیے پورا شہر ایک قبر
 
 
اسی بارے میں
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد