Monday, 03 January, 2005, 05:47 GMT 10:47 PST
حسن مجتبٰی
سان ڈیاگو، کیلیفورنیا
امریکہ نے اگر عراق میں جنگ اور اس کے بعد وہاں تعمیرنو میں خود کو نہ پھنسایا ہوا ہوتا تو وہ ایشیاء میں ہولناک سونامی کے متاثرین کی امداد میں دوسرے ممالک سے آگے ہوتا۔
موجودہ امریکی انتظامیہ پر جب یہ تنقید بہت سے لبرل ڈیموکریٹس اور میڈیا کے ایک حصے کی جانب سے سننے میں آنی تو پھر امریکہ نے اپنی پینتیس ملین ڈالر امداد کو دس گنا کرتے ہوئے تین سو پچاس ملین ڈالر کا اعلان کیا۔
ایشیاء کے گیارہ ممالک میں قیامت خیز سونامی کے متا ثرین کےلیے محض پینتیس ملین ڈالر کی امریکی امداد کے ناقدین نے کہا تھا کہ اتنی رقم سے زیادہ آمدن تو صرف نیویارک شہر میں غلط پارکنگ پر ٹکٹوں (چالان) سے ہوجاتی ہے۔
خود ریپبلیکن پارٹی اور قدامت پسندوں کی طرف جھکاؤ رکھنے والے فاکس ٹی وی سمیت میڈیا میں بھی تنقید اور اقوام متحدہ کی طرف سے سونامی کی تباہ کاریوں کے اعداد و شمار اور اندازے جاری ہونے کے بعد ہی بش انتظامیہ نے نہ صرف امداد کو دس گنا کردینے کا اعلان کیا بلکہ صدر بش نے سیکریٹری سٹیٹ کولن پاول اوراپنے بھائی اور فلوریڈا کے گورنر جیب بش کو متاثرہ ملکوں میں صورتحال کا، بقول امریکی انتظامیہ کے‘ اصل اندازہ لگانے کےلیے دوروں پر بھی بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
اگرچہ عالمی طور پر، انسانی مصیبتوں میں دیگر صنعتی یا ترقی یاقتہ قوموں سے ذرا پیچھے رہنے پر امریکہ کو اس کے ناقدین عالمی ماحولیات کے مسئلے پر روگردانی اور جنگ عراق کے بعد اب ایشیا میں سونامی کی تباہی کے متاثرین کی عالمی امداد کے ضمن میں تغافل کے طعنے دیتے سنائی دیئے۔
میری ایک پکی کرسچن پڑوسن ایشیا میں سونامی کی ایسی تباہیوں کا موازنہ بائیبلی قصوں سے اور میری بیوی قرآنی قصص سے کررہی ہیں۔ لیکن میرے جیسا بے یقین شخص اسے مدر فطرت کی اپنی اولاد سے بے وفای کہہ سکتا ہے یا پھر ایسی الہامی بات کو ہی دہرا سکتا ہے کہ ’زمانے کی قسم ! انسان (ہر جگہ) خسارے میں ہے۔‘
بحر ہند کے خوبصورت کناروں پر یہ تباہ شدہ مقامات جنت ارض کے ایسے مناظر پیش کیا کرتے کہ دنیا بھر کے سیاح کھنچے چلے آتے۔ ابتدائی طور انہی سیاحوں کے اپنے ہی ویڈیو کیمروں میں محفوظ سونامی کی تاتاریوں کی طرح ساحلی بستیوں کو تاراج کرتی ہوئی لہریں اب بار بار دنیا کےسیٹلائیٹ چینلوں پر منجمد لیکن اشکبار ہوئی آنکھوں کو خون کے آنسو رلانے کےلیے کافی ہیں۔
’دریا تجھ پر میں فریاد کروں گا روز قیامت کے‘، سوہنی کے دریا میں ڈوب جانے پر شاہ لطیف بھٹائی نے دریا سے شکایت کی تھی۔ اور ھم آج بحر ہند کی لہروں سے شاکی ہیں۔
ابھی دو برس پہلے کی بات ہے جب یہاں جنوبی کیلیفورنیا میں ایسے لگتا تھا کہ بس اک آگ کا دریا بپھر کر آیا ہے۔ ہر طرف آگ ھی آگ نظر آتی تھی جوکہ مبینہ طورایک جنگل میں کسی گمشدہ مہم جو نے اس کی تلاش میں جنگل کے اوپر منڈلانے والے ہیلی کاپٹر کو اپنی موجودگي کا پتہ دینے کےلیے ماچس کی تیلی جلاکر لگائی تھی۔
یہ ایریزونا میں لگنے والی اس آگ کے محض ایک سال بعد کی بات ہے جب محکمہِ جنگلات کی ایک عملدار نے جنگل میں اپنے بوائے فرینڈ سے ناراض ہوکر اسکےخطوط جلانے کےلیے الاؤ روشن کیا جس سے آگ شہروں تک پھیلی تھی۔
قصہ مختصر کہ اس جنوبی کیلیفورنیا میں وہی لوگ اور عا لمی ریڈکراس کی سان ڈیاگو کی شاخ جو آگ کے متاثرین کی امداد کےلیے کیمپ لگائے ہوئے تھے اب ایشیا میں سونامی کے متاثرین کی بڑھ چڑھ کر امداد کررہے ہیں۔ تو ’بڑا ھے درد کا رشتہ۔۔۔۔‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عالمی ریڈ کراس کو کن ملکوں میں پیسہ دیکر ’ہلال احمر‘ بنا دیا جائے۔
ناگہانی انسانی مصیبت کے اس وقت میں سری لنکا میں مدر فطرت کے ہاتھوں ستائے ہوئے تامل ہوں کہ سنہالی، ہندو ہوں کہ بدہ مت کے ماننے والے یا مسلمان ان سب کی امداد کے کاموں میں کبھی ایک دوسرے کے بدترین دشمن سری لنکن حکومت اور تامل ٹائیگرز ایک دوسرے کے شانہ بشانہ امدادی کاموں میں مشغول ہیں۔
بحر ہند کے جزائر انڈامان کا نام میں نے پہلی بار برصغیر میں انگریزی راج کےخلاف لڑنے والے رہنماؤں اور کارکنوں کو ’کالے پانی‘ کی سزاؤں کے حوالے سے سنا تھا۔ جیسا کہ کسی شاعر نے بھی کہا تھا ’انڈمان کی چاندنیوں میں یہ میرے پرکھوں کی ہڈیاں پھیلی ہوئی ہیں‘۔ میں سوچ رہا ہوں شاید شاعر ماضی اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اب کے بار یہ کیسا کرسمس تھا کہ سونامی سے متاثرہ قوموں کے سفیر جب اقوام عالم کو اپنی اپنی ’وش لسٹ‘ پیش کررہے تھے تو ان میں طلب کی ہوئی امدادی اشیا میں جس چیز کی سب سے زیادہ مانگ تھی وہ تھے ’باڈی بیگز (لاشیں رکھنے والی تھیلیاں)‘۔
عالمی امدادای اداروں کو اس جیسی صورتحال سے لامحالہ واسطہ اس سے پہلے شاید روانڈا میں پڑا ہو لیکن فرق صرف یہ تھا کہ وہاں انسانی بدنصیبی آدمی کی آدمی کے ہاتھوں بنائی ہوئی تھی جبکہ یہاں مدر نیچر کی نامہر بانیاں ہیں۔
اگرچہ بہت عرصہ ہوا کہ مجھے قسمت پر یقین نہیں رہا لیکن انسان کے ساتھ مدر نیچر کے ہاتھوں ایسے ایسے ہاتھ ہو جاتے ہیں کہ مجھے مغل مطلق العنان فرمانروا اورنگزیب کی شاعر صاحبزادی زیب النساء مخفی کا شعر یاد آتا ہے کہ ’میرا بد بخت اتنا تاریک ہے کہ اس سے شام غریباں نے بھی پناہ مانگی ہے‘ یہی شاید آج کے انسان کے ’نصیب‘ میں بھی ہے۔