|
بغداد کے ساتھ’ بغداد ہو بھی چکا‘ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بغداد کے چور ضدی حاکم شاہی قلعے کے ڈھول سپاہی سندھی پولیس والے پنجابی تھانیدار اور ایف آئی یو والے سی آئی اے کراچی اور شنڈلرز لسٹ تم نے تو ان سب کو شرما دیا اے ابو غریب کی دیوارو قسم ہے مجھے تمہارے اندر آکر گھر بنانے والے ان لوگوں کے شب و روز کی جو شب و روز کبھی بدلتے نہیں بس بدلتے ہیں تو بس تمہارے مقدم منتظم اور گارڈز بدلتے ہیں انگوروں کے دانوں میں زہر ننگی تلواروں سے لیس جلاد کہ جن کی تہمت خواجہ سراؤں پر لگی خلیفہ ہارون رشید کے کوتوال خون حسین کے پیاسے قاری القران اور اس کے تاجر مفتیان و آیت اللہ وہ کوفہ، بصرہ، کربلااور نجف دشتِ نینوا ہر دور کے ابنِ زیاد، ابنِ معاویہ اور ابنِ ملجم بعثی سپاہی لہو سے لبریز فرات پیاسی سنگینیں سنی تکونیں سر پھرے شیعانِ حیدرِ کرار بے یار و اغیار کرد سیرین آرمینیائی اپنے ہاتھوں ایک دوسرے کی تکہ بوٹی اور کٹا کٹ کرتے ہوئے یہ اپنے آپ پر وعدہ معاف اپنے ہاتھوں سے اپنے ہسپتال اور عجائب گھر لوٹتے ہوئے تہذیبی خود کشی کرتے ہوئے لوگ ظلم اور جھوٹ سے بھی زیادہ اندھے انسانی کھوپڑیوں کے ہر دم مینار بناتے ہوئے یہ ہلاکو خان، حجاج بن یوسف اے لوگو! تمھارے سروں کی فصل پک چکی اب وقت آیا ہے کہ اس کو بو دیا جائے جمعے کے خطبے دیتے ہوئے ’امیر المومینین‘ اور ان کے کاسہ لیس مدح خواں مؤرخ جنہیں آپ آج کے ہم رکاب صحافی کہہ سکتے ہیں بغداد کے ساتھ ’بغداد ہو بھی چکا‘ کسی کے ساتھ بغداد ہوجانا سندھی میں قیامت گزرجانے کو کہتے ہیں یا ایھا الناس العبدو! تاریخ کی دو پاٹوں والی چکی میں سدا پستی پانی بھی نہیں مانگتی یہ بیچاری یا ایھا الناس العبدو! یہ تمھارے غریب بیٹے اے ابو غریب! تمھارے معنی کیا بھی نکلتے ہو مگر میں تمہیں ’غریبوں کا باپ‘ کہوں گا تم ایسے ہی ہو جیسے غریبوں کا باپ ہوتا ہے تم نے ’جنگ کی ماں‘ کا بھی لفظ سنا ہوگا لیکن میں تمہیں بتاتا چلوں جنگ کی کوئی ماں نہیں ہوتی یہ بن مائی باپ ہوتی ہے ری! جنگ تو ماؤوں سے بچے چھینا کرتی ہے سب مائیں سب کی مائیں ایک طرح کی ہوتی ہیں سانتا باربرا سے لے کر بغداد تک فلوریڈا سے فلوجہ تک وہ جوزف ڈاربی بھی تو کسی ماں کا بیٹا ہے جو ابو غریب کی دیواروں! تمہارے نہ فقط کان مگر آنکھ بھی بن گیا مجھے یاد آئے میری گلی کے وہ جوان اور حسین لڑکے اور لڑکیاں جو سگرٹوں، بئیر، انعامی لاٹری، بہت ہی ’فن‘ پیپر بیک کتابوں، ڈیٹنگ اور دنیا سے محبت کرتے ہیں محبت کرتے تھے ان میں سے بہت واپس گھر آئے اور بہت سے نہیں بھی آئے اے ابو غریب! قسم ہے مجھے تیری دیواروں پر اترتے چڑھتے شب وروز کی یہ سب سندر لڑکے اور لڑکیاں نہیں جو تیرے قیدیوں کی تصویروں میں ان کے ساتھ بغداد کرتے دکھائےگئے ہے تیرے قیدیوں کے گلے میں کتوں کی طرح زنجیریں ڈال کر گھسیٹنے سے لے کر انہیں مشت زنی کا حکم دیتے ہوئے میں تو کسی کے حکم سے نہ تو مشت زنی کرسکتا ہوں نہ کوئی نظم لکھ سکتا ہوں۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||