http://www.bbc.com/urdu/

انقلاب کی فصل پک چکی ہے؟

’خانم گوگوش کی تصویر کے فریم میں ایک ملک بند ہے، جہاں کی سرحدوں میں جوانی منع ہے‘۔ یہ ہیں میرے ایک دوست اور شاعر حسن درس کی خمینی کے ایران پر اُس نظم کی وہ سطریں جس نے میری نسل کے لوگوں کی نظر میں حسن درس کو آمریت کے پتھروں کے ڈھیر تلے دبی ہوئی ممنوعہ جوانی کا شاعر قرار دے دیا تھا۔ اس نظم میں ایک جگہ حسن درس نے یہ بھی کہا تھا،’خمینی تو سُلگتا ہوا ایک سگریٹ ہے جو خود ہی ایک دن تحریک کی قبر جیسی ’ایش ٹرے‘ میں گِر کر راکھ بن جائے گا‘۔ یہ تھی حسن درس کی اُس نوزائیدہ ایرانی انقلاب کے بارے میں ایک نظم۔ جس انقلاب نے اُس خطے میں بہت سے لوگوں کو سخت متاثر کر رکھا تھا۔ اُن لوگوں میں سے بہت نوجوان پھر وہ دائیں بازو کے تھے یا بائیں بازو کے لیکن ان کا تخیلِ انقلاب کچھ ایسے ٹھہرا تھا کے بس ’انقلاب‘ ایک ایسا بڑا ٹرک ہے جو شہر میں داخل ہونے کے لئے کُھلتے پھاٹک پر کھڑا ہے اور صرف چُنگی رسید کٹوانے کی دیر ہے اور پھر انقلاب دھڑام سے مُلک میں داخل ہو جائے گا۔ بس جب ’تخت گرائے جائیں گے، اور تاج اُچھالے جائیں گے‘۔’جب محکُوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی تھر تھر کانپے گی،۔

لیکن یہ سب کچھ اُن دنوں سے بہت پہلے کی بات ہے جب ہم نے اقبال بانو کی آواز میں فیض کی یہ انقلابی نظم ابھی نوازشریف کی پارٹی کے جلوسوں میں ضیاء الحق کی تصویروں کے ساتھ راولپنڈی میں نہیں سُنی تھی۔ تب انقلاب کا ایک نشہ تھا جو اس بھنگ سے زیادہ تھا جو سندھ میں پنجاب سے آتی تھی اور اُسے’مارشل لا بھنگ‘ کہا جاتا تھا۔

جنوبی سندھ میں سندھو کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے شہر پُنوں میں شادی کی قناتوں تلے رات گئے تک احمد فراز کی سمگل شُدہ نظمیں اور ایرانی انقلاب کی کہانیاں۔

ایرانی بلیاں، بُخارا قالین، بھٹو بیگمات، سبط حسن کی انقلابِ ایران، سروش عرفانی کے ’ویو پوائنٹ‘ اور ’مسلم‘ میں لکھے مضامین، کوئٹہ اور کراچی کے فٹ پاتھوں پر مارکس اور اینگلز کی فارسی ایڈیشنوں کے ساتھ ایرانی مصّوری کے فن پاروں پر آرٹ بُکیں۔ وہ اصفہانی چائے کی رنگت جیسی آنکھوں والے لڑکوں جیسی کسی خوبصورت لڑکی کی ٹرکوں کے پیچھے پینٹنگ جسے بہت سے لوگ خانم گوگوش کی تصویر کہتے۔ اور گوگوش کے نغموں کی آڈیو کیسٹیں، کہیں کہیں چور بازار میں فروخت ہوتا ہوا خاندان رُسول کی شبیہوں پر مصّور کیا ہوا پورا البم، خاص طور اس البم میں شیعوں کے بڑے امام علی اور حسنین کی شبیہیں جو آج بھی بہت سے پاکستانی شعیوں کے گھر میں زیارتوں کے کمروں میں رکھی ہوتی ہیں۔

شاہ ایران محمد رضا پہلوی

ایرانی ریسٹورنٹ میں چائے کی پیالی میں انقلاب برپا کرتی نسلیں اور اُن ریسٹورانوں کے بھلے نفیس مالکان۔ قرۃ العین طاہرہ کے ماننے والے بہائی۔ اور سب سے پرانے آتش پرست۔ اور وہ برگر ایرانی لڑکے اور لڑکیاں اب یہ تمام کی تمام تصویریں خرابات انقلابات کی نظر ہوئیں۔

شہزادی فرح دیبا کو مارچ پاسٹ میں سیلوٹ کرتے گزرتے سکولی بچے۔ کس نے جانا تھا کہ یہ پود دس برس بعد ’مَرگ بَر شاہ‘ کے نعرے بلند کرتی ہوئی سڑکوں پر اپنے سینے میشن گنوں کے آگے تان لے گی، اور یوں پاکستان میں بھی خمینی کے مداح پیدا ہوئے۔ایک شیعہ لڑکی سے طلاق لینے والے میرے ایک درینہ دوست نے کہا۔ ’ہمارے ملک کو ایک خمینی کی ضرورت ہے‘۔ پاکستان میں عبدالستار ایدھی جیسے آدمی سے لے کر بہت سے عام لوگ بھی یہی کہا کرتے ہیں۔ بہت سے سخت گیر جج، پولیس والے اور یہاں تک کے ڈاکو بھی خمینی کہلائے۔

خمینی صیحح ہے، روز چالیس لوگوں کو مروانے سے ناشتہ کیا کرتا ہے، بہت سے لوگوں کو کہتے سنُا گیا۔

آپ میں سے بہت سوں کو یاد ہو گا جب ذوالفقار علی بھٹو کے دنوں میں شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور لاڑکانہ میں اُن کے اعزاز میں ہونے والی ضیافت میں جام صادق علی نے اپنے سر پر شراب کا بھرا ہوا پیگ رکھ کر بغیر چھلکائے رقص کیا تھا۔

اور وہ حقیقت نما لطیفہ بھی جب شاہ نے بھٹو سے جام صادق علی کو ایران لے جا کر وہاں کا وزیرِ خزانہ بنانے کی خواہش ظاہر کی، تو بھٹو نے جام سے کہا ’اور پھر شہنشاہ کراچی الفنسٹن سٹریٹ پر بھیک مانگتا دکھائی دے گا‘۔

خدایا خدایا ۔ تا انقلاب مہدی خمینی را نگہبان، جیسے نعرے خمینی کی تصویروں کے ساتھ پاکستان میں محرم کے بہت سے جلوسُوں کا ایک فیچر ٹھہرے، جسے بڑے بوڑھے اور معتدل مزاج شیعہ کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اس انقلاب نے اپنا ایک اچھا خاصہ حصّہ پاکستان میں فرقہ ورانہ فسادات میں ادا کیا۔

تم کب واپس آؤ گے؟ عراق میں جلاوطنی میں جانے والے خمینی سے گود میں شیر خوار بچہ اُٹھائے ہوئے ایک عورت نے پوچھا تھا۔

ایک ایرانی خمینی اور خامنئی کا پوسٹر اٹھائے ہوئے

’جب یہ جوان ہو جائے گا تو میں واپس آ جاؤں گا‘ خمینی نے کہا تھا۔ وہ جوان ہوتا ہوا بچہ مشین گنوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے سامنے آ کر نہ جانے کب کا بہشت زہرا کے سبزہ زاروں تلے سو چُکا، پر وہ انقلاب کے نام پر بار بار ہر روز وہاں مارا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

تہران ہو اگر اقوامِ مشرق کا جینوا ۔ ۔ ۔ ۔ اقبال کا یہ خواب کبھی شرمندہِ تعبیر نہ ہو سکا۔

کیا آپ کو وہ تصویر یاد ہے جب خمینی کے جنازے کے جلوس میں لاکھوں شُرکا کی اُن کی میت کو چھونے کی چھینا جھپٹی میں اُن کا کفن لیرا لیر ہو گیا اور وہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہو گیا جو کہ گزشتہ صدی میں بہت سے ملکوں میں سنسر شُدہ تصاویر میں شمار ہوتا ہے۔ میرے جیسا شخص جو کہ نہ کسی انقلاب اور نہ کسی ظہور مہدی پر یقین رکھتا ہے اُسےکسی کی وہ کہی ہوئی بات یاد آئی، کہ بے رحم تحریک مقدس مقبروں سے لاشوں کے کفن پھاڑ کر انہیں سڑک کے بیچ پھینک دیا کرتی ہے۔

ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، میرے دیس کے شاعر نے تو یہ بھی کہا کہ کیا کوئی خمینی کی گولی حافظ کی کسی غزل کو خاموش کر سکتی ہے۔

انقلاب ایران کا ہم عمر وہ میرا دوست کُرد نوجوان جبار بھی ہے جس کے خاندان نے جلاوطنی کے کافی سال ایران میں گزارے اور وہ کَل مجھے ہر دل عزیز نغمہ نواز ’شہوان پروار‘ کی سی ڈی سننے کو دے گیا جس میں صدام کے دنوں میں کیمیکل حملوں میں مارے گئے کُردوں کے ساتھ ہونے والی کربلا کی کتھا ہے۔ اور مجھے پُونا (انڈیا) سے آ کر یہاں امریکہ میں بسنے والا ایک ایرانی کہہ رہا تھا ’خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب آپ چرچ یا مسجد اور ریاست کو ایک ساتھ رکھتے ہیں۔ امریکہ میں ہم چرچ اور ریاست کی عیلحدگی پر بات کرتے ہیں لیکن ایران میں ایسی بات کرنے والے بہت سے لوگ جیلوں میں ہیں۔

پیزا بیچنے والے کل کے ایرانی بائیں بازو والے سے جب میں نے پوچھا کہ کیا ایران میں بادشاہت پھر لوٹ سکتی ہے تو اُس نے کہا، یہ ایسا ہے جیسے یہاں ’ہوم لیس‘ ہالی وڈ کے خواب دیکھا کرتے ہیں۔ میں تو دوپٹہ اوڑھنے والی بینظیر کو بھی ایرانی انقلاب کا ’شاخسانہ‘ سمجھتا ہوں۔