|
بم مارو بم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
’گولی چل گئی، دھماکہ ہو گیا‘ شام کے اخبارات بیچنے والے نے جناح ہسپتال کراچی کے دل کے شعبے کے اس وارڈ کے دروازے پر آواز لگائی جہاں میں بھی دل کا معاملہ لے کر داخل ہوا تھا۔ میرے ساتھ والے بستر میں، ایک پردے کے فاصلے پر سٹیل مِل کا ایک مزدور لیڈر تھا جس کی وجہء شہرت انتظامیہ کے افسر کو تھپڑ مارنا تھی۔ وہ دل کا بائی پاس آپریشن کروانے کے باوجود اس طرح کی دھماکہ دار خبریں سنتے ہوئے چکن تکہ، چرغہ اور نہاری بھی تناول فرماتا رہتا۔ اُس کا نام شاید کوئی شجاعت خان ٹائپ تھا۔ میں جو زندگی کو فیض کی طرح ’درد اتنا تھا کہ اُس رات، دلِ وحشی نے ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا‘ سمجھنے لگا تھا، اس وارڈ میں پہنچ کر میں سوچنے لگا کہ کاش میں بھی شجاعت خان نام کی کوئی چیز ہوتا۔ ہسپتال کی کُھلی کھڑکیوں سے صبح سویرے ہیر (نسیم صبح کو سندھی میں ہیر کہتے ہیں) کے ساتھ کوئل کی آواز آتی جو آج بھی میرا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ ’مہاجر پاور، سپر پاور‘ ’جاگ پنجابی جاگ‘ ’ظالمو قاضی آ رہا ہے‘ ’دیکھو گدھا پیشاب کر رہا ہے‘ جیسے نعروں سے مزین دیواروں پر اور قریب ہی واقع کور کمانڈر ہاؤس سے آنے والی کوئل کی آواز، چاغی میں ہونے والے نیوکلئیر دھماکے پر بھی حاوی ہوتی، باغی لیکن محبت بھری شاعری جیسی آواز۔ نواز شریف کے دور میں چاغی کے نیوکلئیر دھماکے سے صرف دو روز قبل حِزب اِختلاف کی رہنما بینظیر بھٹو نے حیدرآباد کے جلسے میں نواز شریف کو بھارتی دھماکے کے جواب میں تب تک دھماکہ نہ کرنے کے طعنے کے طور پر چوڑیاں پیش کرنے کی بات کی تھی۔
یہ اپنی لبرل، جمہوریت اور امن پسند بینظیر تھی جس نے وزیراعظم کے طور پر اپنے امریکی دورے کے دوران پاکستان کے پاس نیوکلئیر بم ہونے کی تردید کی تھی تو امریکی حکمرانوں نے اُسے اس کے اپنے ایٹمی پروگرام کی وہ وہ تفصیل بتائی تھی کہ جس سے پاکستان کے وزراء اعظم کو بھی بے خبر رکھا جاتا ہے۔ جہاں ’جرنیلی سڑکوں‘ پر جرنیلوں کے طے شدہ ٹریفک کے اصولوں کی خلاف ورزی پر وزیر اعظم کا چالان ہو جاتا ہے! جہاں وزیراعظم بھی سکیورٹی رِسک ہوتے ہیں - - - چاغی میں پاکستان نے نیوکلئیر دھماکے کئے تو اُس وقت کے بلوچستان کے وزیراعلٰی اختر مینگل کو بھی بے خبر رکھا گیا۔ اُس نے اپنے صوبے میں ہونے والے دھماکے کی خبر صِرف ریڈیو پر ہی سُنی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ہر ڈرامائی اور حیران کر دینے والی خبر اور عمل کو بھی دھماکے کا نام دیا جاتا ہے: ’یار یہ دھماکہ کب کر دیا ؟ شادی کر ڈالی اور ہمیں خبر بھی نہ دی‘۔ ’بم مارو بم مِٹ جائیں ہم‘ ! ہم سن ستر کی دہائی میں بڑے ہونے والے لوگ ہندوستانی فلم ’ہرے رام ہرے کرشنا‘ کے گانے کی پیروڈی میں گایا کرتے۔ ’قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ کی پیروڈی میں میرا ایک دوست کہا کرتا ’قدم بڑھاؤ نوازشریف بم تمہارے ساتھ ہے‘۔ نیوکلئیر دھماکے پر پاکستانی اخبارات کے مدیروں اور سینئیر صحافیوں کے اجلاس میں تمام کے تمام مندوبین نے نوازشریف کو دھماکہ کر ہی دینے کا مشورہ دیا تھا، سوائے ماہنامہ نیوز لائن کی ریحانہ حکیم اور ڈان کے احمد علی خان کے۔
اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنا کیا دھرا، اپنے ہی سائسندان پکڑ کر بھگت رہی ہے۔ جس طرح اُس نے راہ جاتے ہوئے گوتم پبلشر کے کارکن ایمینیول کو پکڑا تھا۔ ایمینیول کا قصور یہ تھا کہ اُس کے تھیلے سے پاکستانی نیوکلئیر دھماکے پر اختلاف رکھنے والے امن پسند سائسندان ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا پاکستانی نیوکلئیر پروگرام پر لِکھا ہوا مضمون برآمد ہوا تھا۔ یا پھر بے ضرر ’ٹھنڈی ٹھنڈی‘ ماحولیاتی رپورٹنگ کرنے والے ڈان کے صحافی بھگوانداس سے آئی ایس آئی نے صرف اس لئے پوچھ گچھ کی کہ وہ اپنے ساتھی صحافیوں کے ساتھ کراچی کے جوہری پلانٹ کے مطالعاتی دورے پر گیا تھا۔ کیا اسلام آباد میں نیوکلئیر دھماکوں کے خلاف احتجاج کرنے والے وہ امن پسند مرد و خواتین ملک کے سجن تھے یا اُن کے جیسوں کو درہم برہم کرنے والےوہ باریش طالبان جو اب بھی پاکستان کے سر پر اس طرح سوار ہیں جس طرح کسی کے سر پر کوئی ’آسیب‘ سوار ہو۔ ان کو مذہبی جنونی مت کہو، پروفیسر اقبال کہتےتھے کہ جنون کی اپنی منزل ہوتی ہے جو عشق سے بھی آگے کی ہے۔ یہ تو پاگل لوگ ہیں۔
حال ہی میں نیویارک ٹائم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کی براہ راست نگرانی سب سے بڑی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ہاتھوں میں ہے۔ آدمی کو تو مرنا ہی ہے، پھر چاہے سڑک پر مرے یا نیوکلئیر حملے میں۔ اس طرح کے کٹر خیالات کا اظہار گفتار کے غازی پاکستانی فوج کے اُس وقت کے چیف آف سٹاف مرزا اسلم بیگ نے کیا تھا۔ اُس نے کہا تھا کہ پاکستان پہلے، دوسرے اور تیسرے حملے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اُس کے بعد آنے والےفوجی سربراہ جنرل آصف نواز نے ایک نجی محفل میں کہا تھا ’اگر میں نیوکلئیر پروگرام کو کیپ کر بھی دوں تو میری اپنی فوج کے بغاوت کر دینے کا خطرہ ہے‘۔ فوجی معاملات پر مشہور جریدے جین ڈیفنس جرنل نے اپنے ایک شمارے میں لکھا: ’پینٹاگون کی جنگی مشقوں میں سے ایک میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ پاکستانی نیوکلئیر بم پر باریش سبز پوش ملاؤں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ طرابلس، لیبیا، سے رپورٹ کرنے والے نیویارک ٹائم کے رپورٹر نے ایک مغربی سفارت کار کے تبصرے کے حوالے سے پاکستان کو نیوکلئیر ہتھیاروں کے معاملے میں ’نیوکس آر اس‘ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے نیوکلئیر پرزہ جات اور ہتھیاروں کی بلیک مارکیٹ کو نیوکلئیر وال مارٹ سے تعبیر کیا ہے۔ مجھے کسی زمانے کا بدنام سمگلر سیٹھ عابد یاد آتا ہے جس کے متعلق افواہ چلی تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے اُسے ’قومی اور دفاعی مفادات میں‘ نیوکلئیر پرزے سمگل کرنے پر معافی دی۔ واہ رے پیارے وطن، تو اور تیرا قومی سمگلر۔
ہندوستان اور پاکستان کی بارڈر سکیورٹی فورسز کے بہت سے سمگلر بھی’قومی سمگلر‘ قرار دیئے گئے کیوں کہ وہ سمگلروں کے روپ میں مخبری کرتے تھے۔ کھپرو سے لے کر کھیم کرن تک ایسے قومی سمگلروں کی کوئی کمی نہیں اور نہ ہی قومی ڈاکوؤں کی، لیکن اُن کا ذکر اذکار پھر کبھی سہی۔ کیا آپ بھی ان سب چیزوں کو جنرل پرویز مشرف کی طرح محض چند افراد کا لالچ اور پیسے کی غرض ہی کہیں گے؟ کیا پیانگ یانگ (شمالی کوریا) کے اڈوں پر اُترنے والے پاکستان فضائیہ کے کارگو طیارے بھی محض چند افراد کا ذاتی لالچ ہی تھا کہ جن میں شمالی کوریا سے نیوکلئیر پُرزوں کے بدلے میزائل لاد کر لائے گئے؟ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||