قدیم عرب شاعری میں کھنڈرات کا استعارہ آج عالمِ عرب کی تباہی کا استعارہ بن گیا ہے

عرب شاعری کھنڈرات استعارہ

،تصویر کا ذریعہThe British Library

،تصویر کا کیپشنامرو القیس، ایک جلاوطن شاعر ۔ جنھیں 'کھنڈرات کی شاعری' کے استعارے کا موجد کہا جاتا ہے
    • مصنف, پال کُوپر
    • عہدہ, بی بی سی کلچر

پال کُوپر لکھتے ہیں کہ قدیم کھنڈرات جنھوں نے قبل از اسلام کے شعراء کو متاثر کیا وہ آج کے عرب ادباء کے لیے نئے معنی رکھتے ہیں۔

ایک یاسیت بھرا منظر دور دور تک پھیلا ہوا ہے، اس منظر میں صرف اُس وقت کچھ تبدیلی نظر آتی ہے جب ریت کے طوفان ریگستان کے پتھریلے ٹیلوں کو ایک نئی شکل دے دیتے ہیں۔

ایک تنہا مسافر پناہ کی تلاش میں انسان کُش ماحول اور پانی سے محروم خطّے میں کسی سایہ دار جگہ کی تلاش میں ہے۔ اور پھر دور اُفق پر تباہ شدہ قدیم دیواروں کی ایک لکیر اس کے سامنے ایک عجیب منظر کی طرح ظاہر ہوتی ہے۔ گرمی کے گرد و غبار میں، وہ کھنڈرات سرابِ نظر کی وجہ سے زمین کے اوپر منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔

جوں جوں وہ قریب آتا جاتا ہے، اس جگہ کی یادیں اس کی نظروں کے سامنے لوٹ آتی ہیں۔ متروکہ اور بے آباد جگہ کے نشانات اور ان کی میخیں، آگ کے اُجڑے ہوئے گڑھے، یہ سب کسی ایک ایسے گھر کی علامات ہیں جو عرصہِ دراز پہلے یہاں کبھی کھڑا تھا اور اب ویران ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اسے کبھی اپنی زندگی کی محبت ملی تھی، جو اب ہمیشہ کے لیے کھو گئی ہے۔

جب وہ کھنڈرات میں گھومتا ہے تو اسے ہرن اور بکریاں چرتی ہوئی نظر آتی ہیں جہاں وہ کبھی اپنے محبوب کے ساتھ گھومتا تھا۔

وہ صحرا کے جنگلی پودوں کو اُس ویران گھر میں قدآور دیکھتا ہے جہاں وہ کبھی ایک ساتھ سوتے تھے۔ جیسے ہی اُسے اپنا گزرا ہوا وقت یاد آتا ہے، آسمان گرج کے ساتھ چمکتا ہے اور پھر زمین پر بارش برستی ہے۔

یہ منظر بہت مشہور ہے۔ صدیوں تک یہ عربی شاعری میں بار بار نمودار ہوتا رہا، اور قبل از اسلام دور اور اسلام کے ابتدائی ایام کے بنیادی شاعرانہ اشعار میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

اسے وقوف 'علی الاطلال' یا 'کھنڈرات میں قیام' کے نام سے جانا جاتا ہے، اور آج اس استعارے نے مشرق وسطیٰ میں جنگ کی تباہیوں اور ریاستی تشدد کی وجہ سے ہونے والے نقصانات پر ردعمل ظاہر کرنے والے فنکاروں کی ایک نئی نسل کی تخیلقی کاوشوں میں جِلا پائی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

'اطلال' (کھنڈرات) کی شکل یا انداز، اسلام سے پہلے کے دور میں، جسے 'جاہلیہ' کے نام سے ('کفر و الحاد' یا قبل از اسلام) کے دور سے پہچانے جانے والے زمانے کے شاعروں میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا موجد چھٹی صدی کا شاعر۔ ایک بادشاہ، امرو القیس تھا۔ القیس سلطنتِ کندہ کا آخری بادشاہ تھا، اور اکثر اہلِ عرب اِسے عربی شاعری کا ’باپ‘ کہتے ہیں۔

اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بظاہر اپنی شاعری سے انتہائی محبت کی وجہ سے اپنی سلطنت سے جلاوطنی میں گزارا، اور اپنی جلاوطنی کے دوران اس نے سرزمین عرب میں گھوم پھر کر شاعری کی۔ روایت ہے کہ اس کی ایک نظم بعد میں سونے سے لکھی گئی اور اسے 'المعلقات السبعہ' (عربی زبان کے سات منظوم شاہکاروں) میں شامل کیا گیا، جو کہ اسلام کے مقدس ترین شہر مکّہ میں خانہ کعبہ میں لٹکائی گئی تھیں۔

'المعلقات' میں شامل کی گئی القیس کی نظم میں ایک کردار کو بیان کیا ہے جو ایک اجڑے ہوئے گھر کے کھنڈرات پر کچھ دیر کے لیے رکتا ہے اور کھنڈرات میں اپنے محبوب کو یاد کرتا ہے۔ وہ ویران، بے آباد اور جنگلی جھاڑیوں سے بھری ہوئی جگہ کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

فتُوح ضِع فالمقراۃِ لم یعف رسمُھا

لِما نسجتھا مِن جنوب وشمال

تری بعر الارآم فی عرصتِھا

و قیعانِھا کانّہُ حبُّ فُلفُلِ

(معلقہ امرو القیس)

ماخوذ ترجمہ: تُو ضح و مقراۃ کے درمیان واقع ہے جس کے نشانات اس وجہ سے نہیں مٹے کہ اس پر جنوبی و شمالی ہوائیں برابر چلتی ہیں

سفید ہرنوں کی مینگنیاں اس مکان کے میدانوں اور ہموار زمینوں میں تُو ایسی پڑی دیکھے گا جیسے سیاہ مرچ کے دانے

'اطلال' کے ساتھ لفظ 'وقوف' کا استعارہ اس کے دوہرے معنی 'کھڑے' اور 'رکنے' کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اس لیے نظم کا یہ حصہ عام طور پر وقت سے باہر خاموشی اور مراقبہ کا ایک لمحہ پیش کرتا ہے۔

عرب شاعری کھنڈرات استعارہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنعراق کے شہر موصل میں النوری مسجد سمیت لاتعداد عمارتوں کے ڈھانچے، مشرق وسطیٰ کے وسیع خطے میں مختلف جنگوں اور تنازعات کی وجہ سے انھیں بہت نقصان پہنچا ہے۔

یادداشت کے ایک ذخیرے کے طور پر اس منظر کا بیان، اُس کے ہجر کی تکلیف اور وصال کی آرزو کی ترجمانی کرتا ہے۔ اپنے محبوب کی یاد تازہ کرنے کے بعد، القیس کے کردار کو ایک لمحے میں ماضی سے حال میں لایا جاتا ہے:

عَلَى قَطَنٍ بِالشَّيْمِ أَيْمَنُ صَوْبِـهِ

وَأَيْسَـرُهُ عَلَى السِّتَارِ فَيَذْبُـلِ

دیکھنے سے اس ابر کی بارش کی دائیں جانب کوہِ قطن اور بائیں جانب کوہِ سِتار اور یذبُل پر معلوم ہوتی تھی

(ماخذ ترجمہ: لیکن آؤ، میرے دوستو، جب ہم یہاں ماتم کرتے ہوئے کھڑے ہیں، کیا تم بجلی کڑکتے ہوئے دیکھتے ہو؟

آسمان پر جمع ہو جانے والے گھنے بادلوں کے درمیان، دو چلتے ہاتھوں کی چمک کی طرح اس کی چمک دیکھیے)

عربی زبان کا اور عظیم شاعری طرفہ بن العبد البکری تھا جو القیس کا تقریباً ہم عصر تھا جن کی نظم بھی المعلقات کے مجموعے میں شامل تھی۔ القیس کی تقلید کرتے ہوئے طرفہ کی نظم افق پر کھنڈرات کے تصور کی طرح ظاہر ہوتی ہے:

لِخَـوْلَةَ أطْـلالٌ بِبُرْقَةِ ثَهْمَـدِ

تلُوحُ كَبَاقِي الوَشْمِ فِي ظَاهِرِ اليَدِ

وُقُـوْفاً بِهَا صَحْبِي عَليَّ مَطِيَّهُـمْ

يَقُـوْلُوْنَ لا تَهْلِكْ أسىً وتَجَلَّـدِ

(المعلقات طرفہ)

ماخوذ ترجمہ: ثہمد کی پتھریلی زمین میں خولہ کے گھر کے نشانات ہیں جوکہ ہاتھ کی پشت پر گودھنے کے باقی ماندہ نشان کی طرح چمک رہے ہیں۔

وہ نشان اس حال میں چمک رہے تھے کہ (میرے یار احباب میری وجہ سے ان کھنڈرات میں اپنی سواریوں کو تھامے ہوئے کہہ رہے تھے کہ) غمِ فراق سے ہلاک نہ ہو اور صبر و ہمت سے کام لے۔

اس کی شاعری میں کھنڈرات کا 'ظہور' ایک ظاہری شکل کے طور پر ایک ہی معنی رکھتا ہے: خواب جیسا اور عجیب، جو کہ افق پر ڈھل رہا ہو۔

ایک بار جب وہ کھنڈرات کے قریب خیمے پر پہنچ جاتا ہے تو شاعر کو ایک کھوئی ہوئی محبت کی یاد آتی ہے۔ اسے ملبے میں ہر جگہ اس کے آثار نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ زمین کی خاک میں بھی:

أَحَـلْتُ عَلَيْهَا بِالقَطِيْعِ فَأَجْذَمَـتْ

وَقَـدْ خَبَّ آلُ الأمْعَـزِ المُتَوَقِّــدِ

میں (قوم کی آواز سن کر) کوڑا لے کر اس ریوڑ کی طرف متوجہ ہوا

تو وہ نہایت تیزی سے سامنے آجاتی ہے جب کہ چمک دار سنگستان کا سراب موج زن تھا۔

کھنڈرات طرفہ کو تقدیر کے ظلم اور وقت کے تیزی سے گزرنے کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ زندگی کی ناانصافی اور نقصان کے ناگزیر ہونے کی بات کرتے ہیں:

عرب شاعری کھنڈرات استعارہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنقدیم دور میں عربی شعراء کبھی کھنڈرات کو کھوئی ہوئی محبتوں اور دیگر پرجوش یادوں کی علامت کے لیے استعمال کرتے تھے، آج کے شعراء کھنڈرات کا استعارہ آج کے دور کی تباہی کے بیان کے لیے استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ بغداد میں، جنگ کی تباہی بیان کرنے کے لیے۔

أَرَى قَبْـرَ نَحَّـامٍ بَخِيْـلٍ بِمَالِـهِ

كَقَبْـرِ غَوِيٍّ فِي البَطَالَـةِ مُفْسِـدِ

(میں اپنے مال پر بخل کرنے والے کنجوس کی، اور ایک گمراہِ لہو و نشاط (اور) اپنے مال کو بگاڑنے والے (انسان) کی قبروں کی مثال دیکھتا ہوں )

تَـرَى جُثْوَنَيْنِ مِن تُرَابٍ عَلَيْهِمَـا

صَفَـائِحُ صُمٌّ مِنْ صَفِيْحٍ مُنَضَّــدِ

(ان دونوں کے مرنے کے بعد) تو مٹی کے دو ڈھیر دیکھے گا جن پر پتھر کی چوڑی چکلی سلوں میں سے کچھ ٹھوس اور سخت سلیں اوپر تلے رکھی ہوئی ہیں۔)

أَرَى المَوْتَ يَعْتَامُ الكِرَامَ ويَصْطَفِـي

عَقِيْلَـةَ مَالِ الفَاحِـشِ المُتَشَـدِّدِ

(میں دیکھتا ہوں کہ موت سخی لوگوں (کی جان) کو (فنا کرنے کے لیے) ان کا انتخاب کرتی ہے اور سخت بخیل آدمی کے نفیس مال کو (چھانٹ چھانٹ کر) فنا کرتی ہے۔)

طرفہ، القیس اور دیگر قبل از اسلام شاعروں کی طرف سے کھنڈرات کے بارے میں جس جذباتیت کا اظہار کیا گیا اس کا مطلب یہ تھا کہ عباسی دور کے اسلامی سنہری دور میں اس استعارے کا تمسخر اڑانا شروع کردیا گیا تھا۔

شاعر ابو نواس (762 - 813 عیسوی)، جو شراب کی پیاس اور مردوں اور عورتوں کے ساتھ اپنے پیار کے تعلقات کی وجہ سے مشہور ہے، اور جسے 'عباسی دور کی شاعری کا بُرا شخص' کہا جاتا ہے، نے کھلے عام اپنے ایک شعر میں اطلال (کھنڈرات) کی شکل کا مذاق اڑایا:

وہ ایک اجڑے گھر کی جگہ کا جائزہ لینے کے لیے بدحواس رکا،

عرب شاعری کھنڈرات استعارہ

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشنمشرق وسطیٰ میں قدیم تہذیبوں کے کھنڈرات نہ صرف عربی نظموں میں بلکہ اس خطے میں بنی فلموں میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں، جیسے کہ ’بابل کا بیٹا‘۔

جبکہ میں ہمسائے میں مہ خانے کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے رکا۔

خدا کبھی پتھروں پر رونے والوں کے آنسو نہ خشک کرے

خیموں کی میخوں پر رونے والوں کی محبت کو کم نہ کرو۔

(ابو نواس، بدحواس موقوف)

اس تضحیک کے باوجود، یہ قدیم استعارہ آنے والے کئی ادوار تک برقرار رہا، اور آج مشرق وسطیٰ میں، فنکاروں کی ایک نئی نسل اس قدیم استعارے کی طرف لوٹ رہی ہے اور اسے استعمال کر کے ان ممالک میں ہونے والے نقصان اور تباہی کا احساس دلاتی ہے جن کا اس خطے کے باسیوں نے حالیہ جنگ کے دوران تجربہ ہے۔ اس تباہی کا تجربہ سب سے زیادہ عراق اور فلسطین کے لوگوں نے کیا ہے۔

ایک شاعری کی قدیم روایت کی دریافت

فلسطینی شاعر محمود درویش کھنڈرات کی روایت کے اہم ترین وارثوں میں سے ایک ہیں۔ اس کی نظم 'البروہ کے کھنڈرات سے پہلے کھڑی' ایک مثال ہے: یہ ان کی البروہ کے تباہ شدہ گاؤں میں واپسی سے متعلق ہے، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔

سنہ 1948 میں جب درویش 7 سال کے تھے تو اسرائیلی افواج نے اس گاؤں پر قبضہ کر لیا اور اسے اس کے فلسطینی باشندوں سے خالی کر دیا، وہاں پھر صرف کھنڈرات رہ گئے۔

درویش کی نظم کے مصرعے طرفہ اور القیس کے معلقات کی نقل کرتی ہیں اور یہاں تک کہ ان قدیم دورِ جاہلیہ کے شاعروں کا ذکر بھی کرتی ہیں:

رک جاؤ تاکہ میں اس جگہ کی اہمیت جان لُوں

اور جاہلیت کے ساتھ اس کا خالی پن

گھوڑوں سے بھرا ہوا اور روانگی

ہر شاعری کے لیے ہم ایک خیمہ لگائیں گے

ہر گھر کو آندھی سے جھنجھوڑنا،

ایک قافیہ ہے.

کھنڈرات میں درویش کے بچپن کی یادیں اسی طرح تازہ ہوتی ہیں جس طرح قدیم شاعروں نے کھنڈروں کے استعرے میں اپنی کھوئی ہوئی محبتوں کی یادیں دیکھی تھیں۔ یہاں کا قدیم استعارہ گھر کے نقصان اور جنگ کی ناانصافی میں رابطے کا ایک طریقہ بن جاتا ہے۔

عراقی ناول نگار سنّان انطون، جنہوں نے محمود درویش کی 'البرویہ' نظم کا انگریزی میں ترجمہ کیا، درویش کی جانب سے اپنی شاعری میں کھنڈرات کے نقش کو استعمال کرنے کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔ انطون کا کہنا ہے کہ درویش 'ایک ایسے ماضی کو یاد کرنے والا ہے جسے کبھی جینے کا موقع نہیں ملا، لیکن وہ ایک سراغ کے طور پر زندہ رہتا ہے۔ یعنی کلاسیکی عربی شاعری کے کھنڈر کا ایک سراغ۔'

عرب شاعری کھنڈرات استعارہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیورپی رومانویت پسندوں نے بھی بعض اوقات کھنڈرات کو اپنا موضوع بنایا - فریڈرک ایڈون چرچ نے 1860 میں شام میں ان رومن کھنڈرات کو پینٹ کیا تھا۔

انطون نے دلیل دی کہ 'کھنڈرات، یا اطلال، حال میں ماضی کی موجودگی کا سراغ دیتے ہیں… اور یہ خاتمے کے ایک جاری سفر اور جلاوطنی کی یاددہانی ہیں۔'

عصری کھنڈرات

انطون کے اپنے ناولوں میں، 'اطلال' یعنی کھنڈرات کا استعارہ عراق اور اس کے آبائی شہر بغداد پر ہونے والے تشدد پر بات کرنے کے طریقے کے طور پر بار بار سامنے آتا ہے۔ صرف ایک مثال کے طور پر، انطون نے اپنے ناول 'دی کارپس واشر' (The Corpse Washer)، یعنی 'مُردے نہلانے والا' میں ایک کردار بغداد نیشنل لائبریری اور نیشنل فلم آرکائیو، جو عرب فلموں کا ایک صدی کا ذخیرہ ہے، کے کھنڈرات میں گھومتا ہے۔ لائیبریری اور آرکائیو دونوں سنہ 2003 کے حملے کے دوران تباہ ہو گئی تھی۔

انطون کے ناول میں امریکی بم سے تباہ ہونے والے بغداد شہر کے کھنڈرات ایک ماضی کا قصہ نہیں ہیں بلکہ ایک زندہ اور آج کی ٹھوس حقیقت ہیں: وہ 'تباہ حال ہیں' اور ایک 'لاش کے ڈھانچے' کی مانند موجود ہیں۔ اس کے برعکس لوگوں کے جسم اور روحیں کھنڈرات کی مانند ہیں: 'میں نے محسوس کیا کہ جو ملبہ میں اپنے اندر لے جا رہی ہوں وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔'

یہاں تک کہ انطون کے پہلے ناول، 'اِجّام' (I'jaam) میں زبان بھی کھنڈر بن جاتی ہے، کیونکہ عربی کے حروف خود بخود ٹوٹنے لگتے ہیں اور متن کا مفہوم غیر واضح اور مبہم ہو جاتا ہے۔

اس استعارے کی سب سے زیادہ نظر آنے والی شکل سنیما میں ہے۔ سنہ 2010 میں، ہدایت کار محمد الدرادجی کی ایوارڈ یافتہ عراقی فلم 'سن آف بابل' نے عراق کے ثقافتی ورثے کی منفرد دولت کا استعمال کیا، اور کرداروں کو قدیم اور جدید دونوں طرح کے کھنڈرات میں گھومتے ہوئے دکھایا۔

یہ فلم ایک نوجوان کُرد لڑکے احمد کی کہانی بیان کرتی ہے، جو سنہ 2003 میں امریکی حملے کے بعد اپنے قیدی باپ کی تلاش کے لیے اپنی دادی کے ساتھ سفر کرتا ہے۔

وہ عراق کے قدیم شہروں جیسے کہ اُر، نمرود اور بابل کے کھنڈرات سے گزرتے ہیں، جو کہ انسانیت کے قدیم ترین آباد شہروں میں سے کچھ ہیں، اور بغداد اور ناصریہ کے جدید کھنڈرات سے گزرتے ہیں جہاں پولیس اسٹیشنوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور سیاسی قیدیوں کی جیلوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

کھنڈرات میں محفوظ یادوں کو دیکھنے کے بجائے، الدردجی کے کرداروں میں صرف تاریکی اور خالی پن نظر آتا ہے، جو جنگ کے بے معنی ہونے اور اس سے ہونے والے نقصان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ الدردجی نے جنگ اور خانہ جنگی کے کھنڈرات کا استعمال کرتے ہوئے 'اطلال' کے استعارے کو ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے، لیکن ایک مخصوص یادداشت کو ظاہر کرنے کے بجائے، کھنڈرات کہا گیا ہے تاکہ وہ ایک پوری نسل کے نقصان کی یادگار بنیں، اور بغیر تلافی کے نقصان کی طرف اشارہ کریں۔

بدو شاعروں کے ابتدائی ایام سے لے کر جدید جنگوں کے شہری میدانوں تک، تباہی کے کھنڈرات کی تلاش کا مسافر اب ایک وسیع تباہی کی علامت بن گیا ہے۔ تشدد کے دور میں پروان چڑھنے والی نسلوں میں جس نے فلسطین، عراق اور لبنان جیسے مقامات کے شہری ماحول کو تباہ و برباد کر دیا ہے، اطلال یعنی کھنڈرات کا استعارہ پھر سے متعلقہ اور زندہ ہو گیا ہے۔

فنکاروں کی ایک نئی نسل نے ماضی کے کھنڈرات کے استعارے میں اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کا ایک نیا طریقہ تلاش کیا ہے۔