ایرانی میزائل حملوں کے بعد ٹرمپ کا دعویٰ کہ ایران پسپائی اختیار کر رہا ہے

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ عراق میں واقع دو امریکی فوجی اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں میں کوئی امریکی فوجی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا صرف کچھ املاک کو معمولی سا نقصان ہوا ہے۔

لائیو کوریج

ذیشان حیدر، حسن زیدی، عابد حسین, عمیر سلیمی and تابندہ کوکب

  1. ایران کے امریکی اڈوں پر حملے اور امریکی ردعمل پر بی بی سی اردو کی لائیو کوریج اختتام کو پہنچی

    missle attack

    ،تصویر کا ذریعہIRNA

    ایران کی جانب سے منگل اور بدھ کی درمیانی شب عراق میں واقع دو امریکی اڈوں پر ہونے والے میزائل حملوں کے بعد تیزی سے بدلتی صورتحال پر بی بی سی اردو کی لائیو کوریج اختتام کو پہنچی۔

  2. بریکنگ, امریکہ ایران کے ساتھ 'سنجیدہ مذاکرات' کے لیے تیار ہے

    مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران سے 'سنجیدگی کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے۔'

    ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

  3. ’سب سے اہم بات ایرانی میزائل کی ہدف کو نشانہ بنانے کی اہلیت ہے‘

    امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے پروفیسر برائے سکیورٹی سٹڈیز وپن نارنگ نے ایرانی میزائل حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹویٹ میں کہا کہ ان کے نزدیک سب سے اہم بات ایران کی ہدف کو من و عن نشانہ بنانے کی اہلیت ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ایران کی جانب سے ہدف کو اتنے زبردست طریقے سے نشانہ بنانا مستقبل میں بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ یہ صلاحیت اب صرف امریکہ کے پاس نہیں بلکہ اوروں کے پاس بھی ہے۔

    X پوسٹ نظرانداز کریں
    X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

    اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

    تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

    X پوسٹ کا اختتام

  4. بغداد کے گرین زون پر راکٹ حملہ

    بدھ کی رات بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون میں کم از کم دو راکٹ گرے ہیں۔ اس علاقے میں امریکی سفارت خانہ بھی واقع ہے۔ اس حملے میں کوئی بھی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا۔

  5. کیا ایران نے میزائل حملوں میں امریکی ہلاکتوں سے بچنے کی کوشش کی؟

    میزائل

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    خبر رساں ادارے روئٹرز کو امریکی اور یورپی سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ ایرانیوں نے جان بوجھ کر ہلاکتوں کو کم کرنے اور امریکی تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے تاکہ بحران کو قابو سے باہر کرنے تحمل اور کشیدگی کو روکنے کے لیے ان کے عزم کا اشارہ مل سکے۔

    سی این این کے صحافی جیک ٹیپر نے پینٹاگون کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران نے ’جان بوجھ کر ایسے اہداف کا انتخاب کیا جس کے نتیجے میں جانی نقصان نہ ہو۔‘

    X پوسٹ نظرانداز کریں
    X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

    اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

    تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

    X پوسٹ کا اختتام

    امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ وہ منگل کی سہ پہر تک جان چکے تھے کہ ایران عراق میں امریکی اہداف پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، حالانکہ یہ واضح نہیں تھا کہ کون سی تنصیبات پر حملہ ہو سکتا ہے۔

    اخبار کے مطابق ، ابتدائی انتباہ انٹلیجنس ذرائع کے ساتھ ساتھ عراق سے ہونے والے مواصلاتی رابطے سے ملا تھا، جس میں ایران کی جانب سے حملہ کرنے کے ارادوں کے متعلق آگاہ کیا تھا۔

    بی بی سی کے امریکی پارٹنر ادارے سی بی ایس کے لیے پینٹاگون کے نمائندے ڈیوڈ مارٹن نے کہا کہ ایک دفاعی عہدیدار نے انھیں بتایا کہ ایرانی حملے سے ’متعدد گھنٹوں‘ قبل امریکہ کو اس کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے امریکی فوجیوں کو بنکروں میں پناہ لینے کے لیے کافی وقت دیا تھا۔

    ذرائع نے بتایا کہ یہ انتباہ مصنوعی سیارے اور مواصلاتی سگنلز اور رابطوں کو ٹریس کرنے کے امتزاج سے ملا تھا۔ یہ وہی نظام ہے جو شمالی کوریا کے میزائل تجربوں کا جائزہ لینے کی لیے استعمال ہوتا ہے۔

    بی بی سی کے دفاعی نمائندے جوناتھن مارکس نے کہا کہ ’یہ ایسا ہی مرتب کیا گیا تھا یا صرف ان کے میزائلوں کی تیاری اورہدف کو نشانہ بنانے میں کوتاہیوں کی وجہ سے تھا۔ تاحال یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ تاہم امریکی اڈوں کے خلاف طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل داغنا ایک خطرناک طریقہ عمل ہے۔‘

    انھوں نے مزید کہا کہ ’ عراق کی الاسد فضائی اڈے پر ایرانی میزائلوں کے اثرات کی ابتدائی سیٹلائٹ تصویروں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے متعدد ڈھانچوں کو تباہ کردیا ہے، لہذا ہلاکتوں کی کمی حکمت عملی کی بجائے خوش قسمتی ہوسکتی ہے۔‘

  6. ایرانی میزائلوں نے دراصل کسے ہدف بنایا؟

    میزائل حملے

    عراق کی فوج نے ایران کی جانب سے امریکی فضا اڈوں پر حملے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے 22 میزائل داغے گئے تھے۔ جن میں سے 17 میزائل الاسد فضائی اڈے پر داغے گئے تھے۔

    مڈل بری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کی نجی کمپنی پلینٹ لیبز کی جانب سے جاری کی گئی مصنوعی سیارے کی تصاویر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الاسد فضائی اڈے پر کم سے کم پانچ تباہ شدہ ڈھانچے دکھائی دیتے ہیں۔

    مڈل بری انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار ڈیوڈ شمرر نے این پی آر کو بتایا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ چند داغے گئے میزائل نشانے پر لگے۔‘

    لیکن یہ واضح تھا کہ کچھ میزائل امریکی فضائی اڈوں پر نہیں لگے تھے۔ عراقی فوج کے مطابق الاسد فضائی اڈے کو نشانہ بنانے والے دو میزائل قصبے کے مغرب میں واقع ہیتان کے علاقے میں گرے اور عراقی فوج کے مطابق یہ پھٹے نہیں۔

  7. کیا صدر ٹرمپ نے جنگ کے خطرے کو کم کیا ہے؟, علیم مقبول بی بی سی، نارتھ امریکہ

    صدر ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    ایران کی جانب سے امریکہ پر میزائل حملہ ہوسکتا ہے کئی دہائیوں بعد ایران کا امریکہ پر براہ راست حملہ ہو لیکن مظاہر جانی نقصان نہ ہونے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کشیدگی کو کم کرنے کا ایک موقع فراہم کیا اور جسے انھوں نے گنوایا نہیں۔

    جبکہ صدر ٹرمپ نے اس سے قبل ایران کی جانب سے کسی بھی حملے کے جواب میں ’فوراً اور بھرپور‘ اور ان کے الفاظ میں ’شائد غیر متناسب انداز‘ میں جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔

    لیکن وائٹ ​​ہاؤس میں اپنی تقریر کے دوران جہاں چاروں طرف اعلیٰ امریکی عہدیدار موجود تھے میں انھوں نے کہا کہ ایران اربیل اور بغداد کے قریب ہونے والے حملوں کے بعد ’پیچھے ہٹ رہا ہے‘۔

    یہاں تک کے انھوں نے نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ اور ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بھی بات کی۔

    البتہ ایران کےسنیئر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد تہران کی طرف سے مزید انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنگ کا خطرہ تھوڑا سا کم ہوا ہے۔

  8. صدر ٹرمپ کے خطاب کے تین اہم پیغامات, جوناتھن مارکس، بی بی سی کے سفارتی اور دفاعی نامہ نگار

    صدر ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

    امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر خطرات اور کشیدگی کو کم کرنے کا ایک مجموعہ تھی۔بہرحال انھوں نے تہران کے خلاف مزید معاشی پابندیاں عائد کی ہیں۔انھوں نے جنرل سلیمانی کے قتل کو فاتحانہ قرار دیا، جسے انھوں نے ’دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد‘ قرار دیا تھا

    لیکن ان کی تقریر میں بنیادی طور پر تین اہم پیغامات تھے۔

    پہلا، کشیدگی کو کم کرنا

    ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں کوئی امریکی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران ’کشیدگی کم‘ کر رہا ہے، شاید وہ اپنی تعینات افواج کو واپس اپنے اڈوں پر بھیج رہا ہے۔انھوں نے فوری طور پر امریکی ردعمل کی دھمکی نہیں دی۔

    دوسرا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ

    انھوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے والے دیگر فریقوں پر زور دیا کے جس طرح امریکہ نے بہت عرصہ پہلے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی وہ بھی اسی طرح اس معاہدے کو ناکام قرار دے کر اس سے دستبردار ہو جائیں۔

    تیسرا، امریکی توانائی کی خودمختاری پر زور دینا

    صدر ٹرمپ نے نیٹو ممالک سے ’مشرق وسطیٰ کے عمل میں زیادہ سے زیادہ شامل ہونے‘ پر زور دیا۔اس کو لامحالہ ایک اور اشارے کے طور پر دیکھا جائے گا کہ امریکہ خطے میں اپنے کردار سے اکتا رہا ہے اور مشرق وسطیٰ یا نیٹو میں اس کے حلیف اس کا خیرمقدم نہیں کریں گے۔

    چنانچہ صدر ٹرمپ کی یہ تقریر تضاد سے بھری تھی اور ایرانی عوام کے روشن مستقبل کے چند حوالوں سے کسی نئے سفارتی اقدام کی تھوڑی سی امید ملی ہے۔

    امریکی ڈرون حملے اور ایران کے جوابی میزائل حملوں کے تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ اب دونوں ملک معمول کے مطابق واپس اپنے معاملات چلائیں گے۔

  9. ٹرمپ نے کیا کہا؟, ٹرمپ کی تقریر کے پانچ کلیدی نکات

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد باقاعدہ ردِ عمل دیا۔ انھوں نے جو باتیں کیں ان کے پانچ اہم نکات یہ تھے

    • ان حملوں میں کوئی امریکی فوجی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا صرف کچھ املاک کو معمولی سا نقصان ہوا ہے۔
    • انھوں نے کہا کہ لگ رہا ہے کہ ایران پیچھے ہٹ رہا ہے جو دنیا کے لیے بہت اچھی بات ہے۔
    • امریکہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
    • انھوں نے عہد کیا کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنا سکے گا۔
    • انھوں نے اپنے مغربی اتحادیوں برطانیہ، فرانس، جرمنی کے علاوہ روس اور چین سے کہا ہے کہ وہ سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدہ ہو جائیں۔
  10. بریکنگ, ہم ہتھیاروں فوجی طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتے: ڈونلڈ ٹرمپ

    امریکی صدر نے ایرانی حکومت کے بارے میں کہا کہ انھوں نے اپنے ہی ملک میں حکومت مخالف ’ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو ہلاک کیا‘۔

    امریکی صدر نے ایران سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’ایران کو اپنے جوہری عزائم اور دہشت گردوں کے لیے حمایت کو ختم کرنا ہوگا۔ ‘

    انھوں نے روس، چین، فرانس اور جرمنی سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کریں ’ آپ حقیقت کو تسلیم کریں، ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ایک نئے معاہدے کے تحت ایران سے دنیا کو محفوظ کیا جا سکے۔ ‘

    میں نیٹو سے کہتا ہوں کہ ’مشرق وسطٰی میں زیادہ مداخلت کرے۔ یہ ہماری سٹریٹیجک ترجحیح ہے۔‘

    امریکی صدر کا کہنا تھا ’امریکہ خود دنیا میں سب سے زیادہ تیل کی پیداوار والا ملک ہے۔ ہم مشرق وسطی کے تیل کے پیچھے نہیں ہیں۔ امریکہ اقتصادی اور فوجی طور پر مستحکم ہے۔ ‘

    صدر ٹرمپ نے اس بیان میں کہا کہ ان کے دور میں دو عشاریہ تین کھرب ڈالر دفاع پر خرچ کیے ہیں اور ان کے بعد زیادہ مہلک، زیادہ بڑے، زیادہ تباہ کن اور تیر با ہدف میزائل موجود ہیں اور اس کے لیے علاوہ آواز کی رفتار سے تیز میزائل بھی بنائے جا رہے ہیں۔

    امریکی صدر نے خطاب میں کہا ’اگرچہ امریکہ کے پاس عظیم فوج اور ہتھیار ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں استعمال کریں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے۔‘

    ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

  11. بریکنگ, ’ایران کے خلاف سخت پابندیاں تب تک جاری رہیں گی جب تک وہ اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا‘

    عراق میں ایرانی میزائل حملوں کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’میں یہ بتاتے ہوئے خوش ہوں کہ کوئی امریکی نہیں مارا گیا۔ معمولی نقصان ہوا۔ احتیاطی تدابیر کی وجہ سے کوئی امریکی یا عراقی ان حملوں میں نہیں مارا گیا۔ ‘

    انھوں نے امریکی فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا ’گذشتہ ہفتے ہم نے فیصلہ کیا کہ امریکہ کو درپیش ایک بے رحم خطرے کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ‘ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’سلیمانی نے دہشت گردوں کی تربیت کی، حزب اللہ سمیت، انھوں نے خطے میں خانہ جنگی کروائی۔ امریکی سفارتخانے پر حملہ کروایا۔ وہ امریکیوں کے خلاف نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ لیکن ہم نے اسے روک دیا۔ ‘

    ان کا کہنا تھا کہ ’ایران کے خلاف طاقتور پابندیاں تب تک جاری رہیں گی جب تک وہ اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا۔‘

    امریکی صدر کا کہنا تھا ’ایران کے ساتھ بے ایک وقوفانہ جوہری معاہدہ کیا۔ انہیں مالی فائدہ ہوا۔ بجائے اس کے ایران شکر گزار ہوتا اس امریکہ کے لیے موت کے نعرے لگائے۔‘

    ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

  12. بریکنگ, ’سلیمانی کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے‘

    امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کی جانب سے عراق میں امریکی ٹھکانوں پر حملے کے بعد کہا ہے کہ ایران دہشت گردی کا سرکردہ سپورٹر رہا ہے اور یہ کہ اس ملک نے ’مہذب دنیا کو دھمکایا ہے‘۔

    ٹرمپ

    ،تصویر کا ذریعہGetty Images

  13. میکونل ٹرمپ کی برداشت پر شکر گزار

    امریکی سینیٹ میں حزب اقتدار کے رہنما میچ میکونل نے کہا ہے کہ وہ ایران کے میزائل حملوں کا جواب دینے میں دانشمندی اور تحمل کا مظاہرہ کرنے پر صدر ٹرمپ کے شکر گزار ہیں۔

    میکونل نے کہا کہ انھوں نے ایران کے میزائل حملوں کے بعد صدر ٹرمپ سے بات کی اور فوری طور پر اس کا جواب نہ دینے پر ان کی تعریف کی۔

    انھوں نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ صدر ٹرمپ جنگ سے گریز کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ امریکی جانوں اور مفادات کا دفاع کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ’وہ امید کرتے ہیں کہ ایران کی قیادت ہمارے مجموعی عزم کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہو گی اور مزید کوئی حملہ نہیں کرے گی۔‘

  14. ترکی اور روس کی جانب سے تحمل کی اپیل

    ترکی اور روس کے صدر نے مشترکہ بیان میں امریکہ اور ایران سے ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اور روسی صدر ولادیمیر پوتن نے نے کہا ہے کہ ’حملوں کے تبادلے سے عدم استحکام کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا۔‘

    ان کا کہنا تھا ’ہم خطے میں جاری حالیہ کشیدگی میں کمی کے لیے پر عزم ہیں اور فریقن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحمل کا مطاہرہ کریں اور سفارتکای کو ترجیح دیں۔‘

    دونوں رہنماؤں نے استبول میں ملاقات کے بعد یہ بیان جاری کیا جہاں انھوں نے ترک سٹریم پائپ لائن کا افتتاح کیا جس کے ذریعے روسی گیس ترکی کے راستے جنوبی یورپ تک پہنچائی جائے گی۔

    ترکی روس

    ،تصویر کا ذریعہAFP

  15. تو کیا یہ بحران ختم ہو گیا ہے؟

    جوناتھن مارکس

    بی بی سی سفارتی اور دفاعی نامہ نگار

    عراق کی موجودہ سیاسی مشکلات کا مطلب ہےکہ ملک میں امریکی فوج کی موجودگی کے بارے میں باقاعدہ فیصلہ ہونے میں اب کچھ وقت ہے۔ لیکن بہت سے مبصرین کو یقین ہے کہ واشنگٹن کی عراق میں پوزیشن اس زیادہ نازک ہو گئی ہے جتنی یہ کچھ ہفتوں پہلے تھی۔

    اس ساری صورت حال میں یہ چیز مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ موجودہ براہ راست تصادم کی صورت کے پیچھے کئی برس سے عراق میں جاری ایران کی کارروائیاں ہیں۔

    یہ ایک خطرناک باب کا خاتمہ تو ہو سکتا ہے لیکن علاقائی سطح پر یہ کشیدگی اور دفاعی کشمکش تو ابھی چلے گی۔ سلیمانی کی ہلاکت کے تاریک سائے ایک لمبے عرصے تک ایران اور امریکہ کے درمیان مستقبل میں ہونے والے رابطوں پر پڑتے رہیں گے۔

  16. بریکنگ, ایران امریکہ کے سامنے پسپائی اختیار نہیں کرے گا: حسن روحانی

    ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں پر ’میزائل حملے ظاہر کرتے ہیں کہ ایران امریکہ کے سامنے پسپائی اختیار نہیں کرے گا۔‘

    ایران کے ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں صدر روحانی نے کہا کہ ’اگر امریکہ نے ایک جرم کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسے اس کا بھرپور جواب ملے گا۔‘

    فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر نے کہا کہ ’اگر ان میں ذرا سی عقل ہو گی تو وہ اس موقعے پر کوئی مزید اقدام نہیں کریں گے۔‘

    ایران نے عراق میں قائم امریکہ کے دو فوجی اڈوں کا نشانہ بنایا جہاں بڑی تعداد میں امریکی فوجی موجود تھے۔ ان میں سے ایک الاسد اور ایک اربیل کے علاقے میں ہے۔ عراق میں اس وقت چار ہزار کے قریب امریکی فوج موجود ہیں جو دولت اسلامیہ نامی شدت پسند گروہ کے خلاف اتحاد کا حصہ ہیں۔

    روحانی

    ،تصویر کا ذریعہget

  17. قبرص ’امریکی ریپڈ رسپانس ٹیم‘ کی میزبانی کے لیے رضامند

    قبرص نے امریکہ کی جانب سے ریپڈ رسپانس ٹیم کو ایک جزیرے پر سٹیشن قائم کرنے کی درخواست قبول کر لی ہے۔

    یہ سٹیشن امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں ممکنہ اضافے کی صورت میں امریکی شہریوں اور اہلکاروں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    قبرص حکومت کے ترجمان کے مطابق امریکی سفارتخانے کی جانب سے بدھ کو یہ درخواست کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’قبرص ایک طویل عرصے سے انسانی امدادی کارروائیوں کے لیے سہولیات فراہم کرتا رہا ہے۔ ہم خطے میں امن اور سلامتی کے لیے ایسا کرتے رہیں گے۔‘

  18. بریکنگ, امریکی سیکرٹری برائے دفاع مارک ایسپر کا پاکستان کے آرمی چیف کو فون

    پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا ہے کہ امریکی سیکرٹری برائے دفاع مارک ایسپر نے آرمی چیف کو فون کیا ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں جاری سکیورٹی کی صورتحال پر بات کی گئی ہے۔ امریکی سیکرٹری نے کہا ہے کہ امریکہ کوئی تنازع نہیں چاہتا لیکن ضرورت پڑنے پر پوری قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔

    X پوسٹ نظرانداز کریں
    X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

    اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

    تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

    X پوسٹ کا اختتام

  19. بریکنگ, پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا: عمران خان

    امریکہ ایران کشیدگی کے تناظر میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ملک کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے کہا ہے کہ وہ ایران، سعودی عرب اور امریکہ جا کر ان ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کریں۔

    ایک ٹویٹ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں نے فوج کے سربراہ جنرل باجوہ سے کہا ہے کہ وہ متعلقہ فوجی رہنماؤں سے بھی رابطہ کریں اور انہیں واضح پیغام دیں کہ پاکستان قیامِ امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے تاہم وہ دوبارہ کبھی کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔‘

    X پوسٹ نظرانداز کریں
    X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

    اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

    تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

    X پوسٹ کا اختتام

  20. ایران خطے کے ممالک کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا

    ایران کی سرکاری خبر رساں ویب سائٹ دولت کے مطابق ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی نے مشرق وسطی کے ممالک کو یقین دلایا ہے کہ ایران ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ ان کے حوالے سے کہا گیا کہ ’ہم دوسرے ممالک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے خاص طور پر خطے کے مسلم ممالک کے خلاف۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر امریکہ اپنی بے رحم کارروائیاں بند کر دیتا ہے تو ہمیں خطے میں صرف امن دکھائی دیتا ہے۔‘

    علی ربیعی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ’اب امریکہ کوئی احمقانہ کارروائی نہیں کرے گا۔‘