آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے

مجھے مرکزی ویب سائٹ یا ورژن پر لے جائیں

کم ڈیٹا استعمال کرنے والے ورژن کے بارے میں مزید جانیں

پاکستان کا داعش کے ترجمان کی گرفتاری کا دعویٰ، خراسان کی پروپیگنڈا سرگرمیاں بھی معطل: سرکاری میڈیا

پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق حالیہ دنوں میں پاکستانی حکام نے داعش خراسان کے خلاف کئی اہم گرفتاریاں کی ہیں، جس میں 16 مئی 2025 کو داعش خراسان کے ترجمان سلطان عزیز عزام کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا داعش ترجمان کے بارے میں کیا کہنا ہے؟

خلاصہ

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ جعلی ڈگری کیس میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بطور ہائی کورٹ جج تعیناتی غیر قانونی قرار دی ہے۔
  • پاکستان کے صوبے سندھ کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مسافر بس کے اغوا میں ملوث چار ڈاکو ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ علاقے میں آپریشن ابھی بھی جاری ہے۔
  • پاکستانی دفترِ خارجہ نے انڈین ریاست بہار میں وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب میں مسلمان خاتون ڈاکٹر کا حجاب زبردستی اُتارنے کے معاملے کی مذمت کی ہے۔
  • امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں سلسل بارش اور سیلابی صورتحال کے باعث غزہ کی پٹی میں بے گھر افراد کو پناہ دینے والے نوے فیصد عارضی مراکز پانی میں ڈوب گئے ہیں۔
  • اڈیالہ جیل کے قریب دھرنا: انسداد دہشتگردی عدالت کا 14 ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کا حکم

لائیو کوریج

  1. پاکستان کا داعش کے ترجمان کی گرفتاری کا دعویٰ، خراسان کی میڈیا اور پروپیگنڈا سرگرمیاں بھی معطل: سرکاری میڈیا

    پاکستان کے سرکاری ٹی وی کو انٹیلیجنس ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان نے رواں برس مئی میں داعش خراسان (آئی ایس کے پی) کے میڈیا سربراہ سلطان عزیز عزام کو گرفتار کیا ہے۔

    پاکستان ٹی وی کے مطابق سلطان عزیز عزام کی پیدائش 1978 میں افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ہوئی۔ وہ ننگرہار یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور داعش خراسان کے ’العزائم‘ میڈیا چینل کے سربراہ رہے ہیں۔

    پاکستان ٹی وی کے مطابق انھیں نومبر 2021 میں امریکہ نے ’سپیشلی ڈیزگنیٹڈ گلوبل ٹیررسٹ‘ قرار دیا تھا۔

    پاکستان ٹی وی کے ذرائع کے مطابق سلطان عزیز عزام سنہ 2016 میں داعش خراسان میں شامل ہوئے تھے اور مئی 2025 میں پاکستان میں داخل ہوتے وقت گرفتار کیے گئے۔

    پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان نے بھی یہ خبر شائع کی ہے کہ ’ذرائع کے مطابق گرفتاری کئی ماہ پہلے عمل میں آئی تھی لیکن اس کا انکشاف حال ہی میں کیا گیا۔ سلطان عزیز عزام کی گرفتاری کے بعد داعش خراسان کی میڈیا اور پروپیگنڈا سرگرمیاں بھی معطل کر دی گئیں۔‘

    اے پی پی کے مطابق حالیہ دنوں میں پاکستانی حکام نے داعش خراسان کے خلاف کئی اہم گرفتاریاں کی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں 16 مئی 2025 کو داعش خراسان کے ترجمان سلطان عزیز عزام کی گرفتاری بھی شامل ہے۔

    اس گرفتاری کا اقوامِ متحدہ کی تجزیاتی سپورٹ اور پابندیوں کی مانیٹرنگ ٹیم کی 16ویں رپورٹ میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اقدامات نے عالمی سطح پر داعش خراسان کے تنظیمی ڈھانچے کو کمزور کر دیا ہے۔

    مزید یہ کہ کئی منصوبہ بند دہشت گرد حملے ناکام بنا دیے گئے اور شدت پسندوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔

    اقوام متحدہ کا سلطان عزیز کے بارے میں کیا کہنا ہے؟

    اقوام متحدہ کےمطابق سلطان عزیز عزام سنہ 2015 میں افغانستان میں داعش خراسان (ISIL-K) کے قیام کے وقت سے اس کے ترجمان کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

    یو این کے مطابق ’ترجمان کی حیثیت سے سلطان عزیز نے داعش کی پرتشدد جہادی سوچ کو پھیلانے، دہشت گردانہ کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے اور ان کی تشہیر میں اہم کردار ادا کیا۔ افغان صحافی کے طور پر اپنے سابقہ تجربے کی بنیاد پر ان کی سرگرمیوں نے داعش خراسان کی مرئیّت اور اثر و رسوخ کو بڑھایا۔ ان کے متعدد بیانات اور پروپیگنڈا سرگرمیوں نے نئے افراد کی بھرتی اور تنظیم کی جانب سے حملوں میں اضافے کا باعث بنی۔‘

    اقوام متحدہ کے مطابق 26 اگست 2021 کو سلطان عزیم نے کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب خودکش حملے کی ذمہ داری داعش خراسان کی جانب سے قبول کی، جس میں کم از کم 170 افغان اور 13 امریکی فوجی ہلاک جبکہ 150 زخمی ہوئے۔ اپنے بیان میں انھوں نے بتایا کہ اس حملے کی نگرانی داعش خراسان کے سربراہ ثنا اللہ غفاری نے کی تھی۔

    اس عالمی ادارے کے مطابق دو مارچ 2021 کو داعش خراسان نے تین خواتین صحافیوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ قتل کے اگلے روز داعش خراسان کے نیوز چینل ’اخبار ولایت خراسان‘ نے سلطان عزیز کا پیغام نشر کیا جس کا عنوان تھا: ’ہم عمل پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں‘۔ اس پیغام میں انھوں نے کہا کہ یہ قتل افغان حکومت کی جانب سے داعش خراسان کے زیرِ اثر دیہات کی تباہی کے جواب میں کیا گیا، جس میں خواتین اور بچے مارے گئے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان خواتین کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ افغان حکومت گرفتار غیر ملکی داعش خراسان کے ارکان کو ان کے ممالک واپس بھیجنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

    اقوام متحدہ کے مطابق 3 اگست 2020 کو داعش خراسان نے جلال آباد کی جیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں 29 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہوئے۔ حملے کے بعد تنظیم کے میڈیا پلیٹ فارم نے 20 منٹ کی آڈیو جاری کی جس میں اعظم نے بتایا کہ ایک خودکش بمبار نے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی جیل کے دروازے پر دھماکہ کیا، جس کے بعد گروہ کے ارکان اندر داخل ہو کر سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کر گئے۔ تفصیلات کے مطابق انھوں نے حملہ آوروں کی تفصیلات بھی فراہم کیں اور کہا کہ یہ کارروائی ثنا اللہ غفاری کے اس وعدے کے مطابق تھی کہ جیل میں موجود ارکان کو رہا کیا جائے گا۔

    سلطان عزیز کی پروپیگنڈا سرگرمیوں نے داعش خراسان کو افغانستان میں بڑے حملے کرنے کے لیے اپنے ارکان کو بھرتی اور متاثر کرنے میں مدد دی۔ انھوں نے کئی کتابیں اور مضامین لکھے جن میں جہادیوں کے قصے بیان کیے گئے تاکہ لوگوں کو تنظیم میں شامل ہونے کی ترغیب دی جا سکے۔ ان کتابوں کے اقتباسات اور واقعات اکثر حامیوں کی جانب سے ٹیلیگرام پر شیئر کیے جاتے ہیں۔

  2. دفترِ خارجہ کی فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکہ کے دورے کے متعلق خبروں کی تردید: ’خبر سے ایسا تاثر ملتا ہے جیسے دورے کی منصوبہ بندی ہو چکی‘

    پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے میڈیا میں چلنے والی ان خبروں کی تردید کی ہے کہ چیف آف ڈیفینس سٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر جلد ہی امریکہ کا دورہ کریں گے۔

    جمعرات کے روز، دفترِ خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران طاہر اندرابی سے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے مستقبل قریب میں امریکہ کے دورے اور واشنگٹن میں امریکی صدر سے ممکنہ ملاقات کے حوالے سے سوال کیا گیا۔

    ترجمان دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ جہاں تک چیف آف آرمی سٹاف اور چیف آف ڈیفنس فورسز کے امریکہ کے دورے کا سوال ہے، اس حوالے سے فی الحال ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ’میں نے رپورٹس دیکھی ہیں، لیکن میرے پاس آپ کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘

    یاد رہے بدھ کے روز بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر جلد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔ روئٹرز نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس ملاقات میں غزہ امن فورس میں پاکستانی فوجیوں کو بھیجنے کے متعلق بات چیت ہو گی۔

    جب طاہر اندرابی سے ایک اور صحافی نے روئٹرز کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورے کے متعلق سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ روئٹرز کی خبر کی اس تناظر میں تردید کر سکتے ہیں کہ خبر سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ جیسے اس دورے کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے اور یہ حتمی ہے۔ ’تو، میں اس کی تردید کر رہا ہوں۔‘

    ترجمان نے ایک بار پھر اپنا موقف دہرایا کہ ان کے پاس اس دورے کے متعلق کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ’کسی ایسے دورے کی صورت میں ہم حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری اعلان کا انتظار کریں گے۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت مختلف دارالحکومتوں کا دورہ کرتی ہے اور جب سرکاری دورے کا اہتمام ہوتا ہے تو اس سے پہلے ایک باضابطہ اعلان کر دیا جاتا ہے جو اس معاملے میں اب تک نہیں کیا گیا ہے۔

  3. اگر کوئی سفیر عدالتی کارروائی میں شرکت کرنا چاہتا ہے تو اُسے وزارتِ خارجہ سے اجازت لینا ہو گی: ترجمان

    پاکستان کے دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں تعینات کوئی سفیر عدالتی سماعت میں شرکت کرنا چاہتا ہے تو اُسے سماعت میں شرکت سے قبل وزارتِ خارجہ سے اجازت لینا ہو گی۔

    جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے کہا کہ پاکستان میں تعینات ناروے کے سفیر کی عدالتی سماعت میں شرکت کا معاملہ اُنھیں وزاتِ خارجہ میں طلب کرنے کے بعد ختم ہو گیا ہے۔

    تاہم ترجمان نے کہ عدالتوں میں سفیروں کی حاضری اُن کا حق نہیں ہے اور اگر پاکستان میں تعینات سفیر کسی بھی عدالتی سماعت میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں وزارت خارجہ سے منظوری لینا ہو گی۔

    ترجمان نے کہا کہ ’سفیروں کو سفارتی استثنیٰ ملتا ہے لیکن اُن پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی سفیر عدالتی سماعت میں شرکت کرنا چاہتا ہے تو اُسے اپنی سفارتی مراعات اور استثنیٰ چھوڑنا پڑے گا۔‘

    یاد رہے کہ ناروے کے سفیراُس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ گئے تھے، جب انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری اور اُن کے شوہر ہادی چٹھہ ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت جاری تھی۔

    دفترِ خارجہ نے پاکستان میں ناروے کے سفیر کی جانب سے عدالتی کارروائی میں ’غیر ضروری‘ حاضری پر اُنھیں طلب کر کے ’ڈیمارش‘ کیا تھا۔

    وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ناروے کے سفیر کا یہ اقدام ’سفارتی پروٹوکول،‘ متعلقہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔

  4. اگلے سیزن سے دیوسائی نیشنل پارک کی حدود میں موسمی ہوٹلوں، تجارتی سرگرمیوں پر پابندی عائد

    گلگت بلتستان کی حکومت نے آنے والے سیاحتی سیزن سے دیوسائی نیشنل پارک کی حدود کے اندر کسی بھی قسم کے موسمی ہوٹل یا تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔

    گلگت بلتستان کے ڈویژنل فاریسٹ افسر کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری جنگلات، جنگلی حیات و ماحولیات کے احکامات کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ آنے والے سیاحتی سیزن سے دیوسائی نیشنل پارک کی حدود کے اندر کسی بھی قسم کا موسمی ہوٹل اور رہائش گاہ کھولنے یا دیگر تجارتی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہو گی۔

    دیوسائی کے میدان سطح سمندر سے انتہائی اونچائی پر گلگت بلتستان میں سکردو، خرمنگ اور استور کے اضلاع کے درمیان واقع ہیں۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق، یہ فیصلہ دیوسائی نیشنل پارک کے قدرتی ماحول، جنگی حیات اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے لیا گیا ہے۔ ’پارک کی حدود کے اندر ہوٹلوں اور تجارتی سرگرمیوں کے باعث ماحولیاتی نقصان، جنگلی حیات میں خلل اور متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کا خدشہ رہتا ہے۔‘

    ڈویژنل فاریسٹ افسر کی جانب سے تمام متعلقہ ہوٹل مالکان اور منتظمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آئندہ سیزن کے لیے پارک کی حدود کے اندر کسی بھی قسم کا ہوٹل یا نئی سہولت قائم نہ کریں۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

    اس سے قبل رواں برس ستمبر میں پاکستان کی نامور گلوگارہ قرۃ العین بلوچ پر دیوسائی نیشنل پارک میں ریچھ کے حملے کے بعد صوبائی حکومت نے دیوسائی میں رات کے وقت کیمپنگ پر پابندی لگا دی ہے اور یہ پابندی اس سیزن کے لیے ہے۔

  5. جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری درست نہیں، بطورِ جج تعیناتی غیر قانونی ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ

    پاکستان میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے انھیں بطور اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کے نااہل قرار دیا ہے۔

    جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بطور ہائی کورٹ جج تعیناتی غیر قانونی قرار دے دی ہے۔

    عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ طارق جہانگیری بطور جج تعیناتی کے وقت اُن کی ایل ایل بی کی ڈگری درست نہیں تھی اور آئین کے ارٹیکل 175 کے تحت ان کے پاس جج بننے کی مطلوبہ اہلیت نہیں ہے۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ اسی لیے بطورِ جج اُن کی تعنیاتی غیر قانونی تھی۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اب طارق جہانگیری عہدہ رکھنے کے اہل نہیں ہیں اور وزرات قانون انھیں ڈی نوٹیفائی کرے۔

    جعلی ڈگری کا معاملہ کب منظر عام پر آیا؟

    دس جولائی سنہ 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکیل میاں داؤد ایک درخواست دائر کرتے ہیں جس میں مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ انھیں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری سے متعلق کچھ ایسی معلومات ملی ہیں جس سے انھیں شک ہے کہ مذکورہ جج کی قانون کی ڈگری جعلی ہے لہٰذا اس معاملے کی تحققیات کروائی جائیں۔

    اس درخواست پر رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراض لگایا جاتا ہے اور 11 جولائی کو اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق اس درخواست پر لگائے گئے اعتراضات کی سماعت کرکے فیصلہ محفوظ کرلیتے ہیں۔ تاہم اس درخواست پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اور جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے یہ معاملہ موجودہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو بھیجا۔

    جسٹس جہانگیری کی جعلی ڈگری کو لے کر کچھ وکلا سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرتے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ اس پر سٹے ارڈر جاری کر دیتی ہے جس کے بعد اس وقت کی اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت بھی اس میں فریق بن جاتی ہے۔

    ابھی سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کیا گیا حکم امتناع برقرار تھا کہ اس ہی دوران 22 ستمبر کو سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایک درخواست آتی ہے کہ جج صاحب کی ڈگری کو لے کر ہماری ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے اس لیے حکم امتناع میں نہ صرف انھیں فریق بنایا جائے بلکہ اس معاملے کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ میں پہلے یہ درخواست 30 ستمبر اور پھر اس سماعت کی تاریخ 25 ستمبر مقرر کر دی جاتی ہے۔

    جسٹس طارق محمود جہانگیری اپنی ساتھی جج جسٹس ثمن رفعت کے ساتھ اس درخواست کے سماعت کے لیے اسلام آباد سے کراچی گئے اور انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جج کے کے آغا کی سربراہی میں قائم دو رکنی آئینی بینچ کو اس درخواست میں فریق بننے کی استدعا کی۔

    انھوں نے موقف اپنایا کہ چونکہ اس معاملے کا تعلق ان کی ڈگری سے ہے، اس لیے انھیں سنا جائے۔ تاہم عدالت نے یہ کہہ کر جسٹس جہانگیری کی درخواست کو مسترد کردی کہ پہلے زیر سماعت درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا اور اگر درخواست کو قابل سماعت ہوئی تو اس کے بعد ہی ان کا موقف سنا جائے گا۔ اس پر جسٹس جہانگیری اور کمرہ عدالت میں موجود وکلا نے احتجاج کیا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔

    بعد ازاں عدالت نے زیر سماعت درخواست کو عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دیا۔

    سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست خارج کیے جانے کے بعد کراچی یونیورسٹی نے مذکورہ جج کی ڈگردی کے متعلق ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ اگست 2024 میں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں طارق محمود کا ایل ایل بی کا انرولمنٹ نمبر 7124/87 اور سیٹ نمبر 22857 کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ جج پر تین سال کے لیے کسی بھی لا کالج میں داخلے اور یونیورسٹی کے کسی بھی امتحان میں بیٹھنے پر پابندی ہوگی۔

    کراچی یونیورسٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ جسٹس جہانگیری کبھی بھی اسلامیہ لا کاج کے سٹوڈنٹ نہیں رہے۔

  6. گھوٹکی: بس کے اغوا میں ملوث چار ڈاکوؤں کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا دعویٰ، علاقے میں آپریشن جاری, ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

    پاکستان کے صوبے سندھ کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مسافر بس کے اغوا میں ملوث چار ڈاکو ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

    16 دسمبر کو مسافر بس کو اُس وقت اغوا کیا گیا جب وہ بس صادق آباد سے کراچی جاری تھی۔ ڈاکوؤں نے بس پر حملہ کرکے 14 کے قرب مسافروں کو اغوا کیا تھا جنھیں بعد میں پولیس نے بازیاب کروایا۔

    ڈی ایس پی قادر سومرو نے بی بی سی کو بتایا کہ مسافر بس کے اغوا کے بعد آپریشن کچہ کراچی اور کچہ راجوانی کے علاقوں میں جاری ہے، جس میں ملزم ہزارہ عرف لالا سکھانی ،متارا، گل حسن لولائی اور اقبال عرف بالا مزاری ہلاک ہوگئے ہیں جن میں سے ہزارہ سکھانی پر پنجاب پولیس نے پچاس لاکھ روپے انعام رکھا تھا۔

    ڈی ایس پی سومرو کے مطابق آپریشن پنجاب کے کچے کے علاقے میں جاری آپریشن کی قیادت گھوٹکی پولیس کر رہی ہے جبکہ آس پاس کے اضلاع کی پولیس بھی اس آپریشن میں معاونت کر رہی ہے۔

    جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ہلاک ہونے والے ڈاکوؤں کی لاشیں پولیس کے پاس ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈرونز کی مدد سے نگرانی کی اور مقامی ذرائع نے ڈاکوؤں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

    دوسری جانب مسافر کوچ پر حملے اور مسافروں کے اغوا کے واقعے کا مقدمہ تھانہ گھوٹکی کے کھمبڑا تھانے میں سرکار کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے۔ جس میں انڈھڑ گینگ کے سرغنہ ڈاکو تنویر اندھڑ، عاشق کورائی، خیر محمد، طارق سکھانی، ہزارہ سیکھانی، گل حسن لولائی سمیت دیگر کو نامزد کیا گیا ہے، مقدمے میں انسداد دہشتگردی اور اقدامِ قتل کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

    اس سے قبل سندھ پولیس نے کہا تھا کہ کہ گھوٹکی گڈو کشمور لنک روڈ پر مسافر بس پر حملے کے بعد اغوا کیے گئے تمام مسافر بازیاب کرا لیے گئے ہیں۔

  7. پاکستان اور لیبیا کے فلیڈ مارشلز کی ملاقات، دفاعی شراکت داری کو فروغ دینے پر اتفاق

    فیلڈ مارشل عاصم منیر نے لیبیا کے سرکاری دورے پر پہنچنے کے بعد لیبیا کی صدارت میں قائم عرب مسلح افواج کے کمانڈر اِن چیف فیلڈ مارشل خلیفہ بلقاسم حفتر اور اُن کے نائب لیفٹیننٹ جنرل صدام خلیفہ حفتر سے ملاقات کی ہے۔

    فیلڈ مارشل عاصم منیر کے لیبیا پہنچنے پر عرب مسلح افواج کے دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔

    فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر کے ساتھ ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورتحال اور دوطرفہ دفاعی و فوجی تعاون کو فروغ دینے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ فریقین نے تربیت اور انسدادِ دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

    فیلڈ مارشل عاصم منیر نے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر لیبیا کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔

    فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو سراہا اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔

  8. وزیر اعلیٰ بہار کی جانب سے مسلمان خاتون کا حجاب زبردستی اُتارنے کا اقدام انتہائی تکلیف دہ ہے، پاکستانی دفتر خارجہ

    پاکستانی دفترِ خارجہ نے انڈین ریاست بہار میں وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب میں مسلمان خاتون ڈاکٹر کا حجاب زبردستی اُتارنے کے معاملے کی مزمت کی ہے۔

    پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے جمعرات کے روز ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’ایک سینئر سیاسی رہنما کی جانب سے ایک مسلمان خاتون کا حجاب زبردستی اتارنا اور اس کے بعد اس عمل پر عوامی تمسخر انتہائی تشویشناک ہے اور سخت مذمت کا تقاضا کرتا ہے۔‘

    انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ اقدام انڈیا میں مسلمان خواتین کی تذلیل کو معمول بنانے کی جانب بڑھنے کی کڑی بن سکتا ہے۔ یہ رویہ انڈیا کی مذہبی اقلیتوں، بالخصوص اس کے مسلم شہریوں، کے لیے عوامی بد سلوکی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’ہم تمام ذمہ دار فریقین اور انڈین حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس واقعے کی سنگینی کو تسلیم کریں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، مذہبی آزادی کے احترام اور انسانی وقار کے تحفظ کے لیے اپنا کرداد ادا کریں۔‘

    انڈین ریاست بہار میں ہوا کیا تھا؟

    انڈین ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے ایک سرکاری تقریب کے دوران ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر کا حجاب زبردستی اُتارنے کے معاملے پر ویڈیو سامنے آنے کے بعد شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا۔

    وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے 15 دسمبر کو وزیرِ اعلیٰ آفس میں ڈاکٹرز کو ملازمت کے تقرری نامے دینے کی تقریب میں شرکت کی۔

    نتیش کمار کے ایکس اکاؤنٹ پر اس تقریب کی تصاویر لگائی گئی ہیں، تاہم جس خاتون کا حجاب اُتارنے کا معاملہ زیر بحث ہے، ان تصاویر میں وہ شامل نہیں ہے۔

    نتیش کمار کون ہیں؟

    نتیش کمار کی پیدائش یکم مارچ 1951 میں پٹنہ کے بختیار پور میں ہوئی تھی۔ بہار کالج آف انجينيرگ، پٹنہ سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سنہ 1985 میں سیاست میں آئے۔

    نتیش کمار جنتا دل یونائیٹڈ کے صدر ہیں اور وہ کبھی بی جے پی تو کبھی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر بہار میں حکومت قائم کرتے رہے ہیں۔

    اُن کا شمار ریاست بہار میں سب سے زیادہ مدت کے لیے وزیر اعلی رہنے والے سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔

    گذشتہ برس اُنھوں نے اچانک اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ چھوڑ کر ایک بار پھر بی جے پی سے اتحاد قائم کر کے وہاں حکومت قائم کر لی تھی۔

  9. غزہ میں سردی اور سیلاب سے 17 افراد ہلاک: ’90 فیصد بے گھر افراد کے خیمے ڈوب چکے ہیں‘ غزہ انتظامیہ

    غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ مسلسل بارش اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کے باعث غزہ کی پٹی میں بے گھر افراد کو پناہ دینے والے عارضی مراکز میں سے 90 فیصد پانی میں ڈوب چکے ہیں۔

    ایجنسی کے مطابق غزہ کی پٹی میں شدید سردی کے نتیجے میں اب تک 17 شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔

    یونیسف کا کہنا ہے کہ کئی دنوں سے جاری شدید بارش کے بعد جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو جانے والے خاندانوں کو اپنے بچوں کو گرم اور خشک رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

    یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں شدید بارش اور تیز ہواؤں نے پہلے ہی مشکل حالات کو مزید بدتر بنا دیا ہے۔

    یونیسف کے مطابق عارضی خیموں میں رہنے والے لاکھوں بچے اب جان لیوا بیماریوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا ہے کہ غزہ میں تقریباً دس لاکھ افراد ایسے خیموں میں رہ رہے ہیں جو سخت موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب طور پر مضبوط اور محفوظ نہیں ہیں۔

    دوسری جانب غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے خبر دی ہے کہ جنگ کے دوران متاثر ہونے والی عمارتوں کے بارشوں کی وجہ سے منہدم ہونے سے ان میں پناہ لینے والے کئی افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

    غزہ کی بگڑتی صورتحال کے بعد سول ڈیفنس تنظیم نے عالمی برادری سے فوری کارروائی اور امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سیلابی پانی نے رہائشیوں کے خیموں کو ڈبو دیا ہے۔ یہ خیمے ہزاروں خاندانوں کے لیے عارضی رہائش ہیں۔ لوگوں کے کپڑے، گدے اور کمبل بھیگ چکے ہیں۔ اس علاقے میں انسانی تکالیف میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔‘

    دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی ضامن مصر نے اعلان کیا ہے کہ’اس معاہدے کے دوسرے مرحلے پر فوری طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔‘

  10. پنجاب کے میدانی علاقوں میں شدید دھند کی پیش گوئی، شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت

    پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے خبردار کیا ہے کہ صوبے کے میدانی علاقوں میں شدید دھند کا امکان ہے۔ ادارے کے مطابق رات اور صبح کے اوقات میں حدِ نگاہ بری طرح متاثر ہو سکتی ہے جس سے حادثات کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

    ڈی جی پی ڈی ایم اے نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں، خصوصاً رات 12 بجے سے صبح نو بجے تک۔ انھوں نے کہا کہ ڈرائیور فوگ لائٹس استعمال کریں، رفتار کم رکھیں اور گاڑیوں کے درمیان محفوظ فاصلہ برقرار رکھیں تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔

    اتھارٹی نے مزید کہا کہ معمر افراد، بچے اور سانس کے مریض غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ شہریوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ موٹر ویز پر سفر سے اجتناب کریں اور موٹر وے پولیس کی ہدایات پر عمل کریں۔

    پی ڈی ایم اے کے ترجمان نے کہا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں شہری ریسکیو 1122 یا پی ڈی ایم اے ہیلپ لائن 1129 پر رابطہ کریں۔

  11. جنگ میں مودی سرکار کو ایسا سبق دیا گیا جو وہ زندگی بھر نہیں بھولیں گے: وزیراعظم شہباز شریف

    پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’افواجِ پاکستان نے قوم کی دعاؤں کے ساتھ میدانِ حق میں فتح حاصل کی اور انڈیا کو دہلی سے ممبئی تک ایسی شکست دی جسے وہ کبھی فراموش نہیں کر پائے گا۔‘

    ہری پور میں طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے خیبرپختونخوا کے عوام کو دلیر اور غیور قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کے عوام کئی دہائیوں سے دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہیں اور ان کی قربانیوں کی بدولت ملک میں امن قائم ہوا۔

    انھوں نے اعلان کیا کہ صوبے بھر میں مزید لیپ ٹاپ تقسیم کیے جائیں گے کیونکہ پاکستان کی ترقی کی کنجی نوجوان نسل ہے۔

    اپنی تقریر میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے، معیشت منجدھار سے نکل کر اب مستحکم ہو رہی ہے اور اسے مزید آگے لے جانا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی اتحاد سے ممکن ہے اور جب چاروں صوبے ترقی کریں گے تو ملک بھی ترقی کرے گا۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان بھر سے طلبہ کا انتخاب خالصتاً میرٹ پر کیا جائے گا اور انھیں یورپ اور چین میں مصنوعی ذہانت کی تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

    وزیراعظم نے ہری پور یونیورسٹی میں خواتین کے کیمپس کے قیام کے ساتھ ہری پور میں دانش سکول بنانے کا بھی اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان ہی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہیں اور یہ اہداف صرف انتھک محنت اور اتحاد سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

  12. مطالبات کی منظوری کے بعد گڈز ٹرانسپورٹرز کا ہڑتال ختم کرنے کا اعلان, تنویر ملک، ۔صحافی

    پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ الائنس نے بدھ کے روز اپنی ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ وفاقی حکومت اور پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتوں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد سامنے آیا، جن میں ٹرانسپورٹرز کے تقریباً تمام مطالبات مان لیے گئے۔

    الائنس کے رہنما ملک شہزاد اعوان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات کے دوران ٹرانسپورٹ برادری کے مسائل تفصیل سے پیش کیے گئے اور حکومت نے ان مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے تسلیم کر لیا۔

    ان کے مطابق پنجاب کے وزیرِ ٹرانسپورٹ بلال اکبر مذاکرات کے لیے کراچی آئے تھے اور ڈرائیونگ لائسنسز سمیت دیگر امور پر بات ہوئی۔ ٹرانسپورٹروں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ حراست میں لیے گئے تمام ڈرائیوروں کو رہا کیا جائے۔

    ملک شہزاد اعوان نے بتایا کہ پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے بھی ان سے رابطہ کیا اور یقین دہانی کرائی کہ حکومت ٹرانسپورٹ برادری کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اور الائنس کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں اور اس کا باضابطہ نوٹیفکیشن جلد جاری کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ گڈز ٹرانسپورٹرز نے گذشتہ ہفتے پنجاب موٹر وہیکل آرڈیننس، ڈرائیوروں کے خلاف مقدمات، بھاری جرمانوں، ایکسل لوڈ کی حد اور دیگر مسائل کے خلاف ملک گیر ہڑتال شروع کی تھی۔

  13. پاکستان بحریہ کی جدید ہتھیاروں سے لیس آبدوز ’غازی‘ کی چین میں لانچنگ، آئی ایس پی آر

    پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نیوی کی چوتھی ہینگور کلاس آبدوز ’غازی‘ کو چین کے شہر ووہان میں شوانگ لیو بیس پر لانچ کر دیا گیا ہے۔ اس لانچنگ کے ساتھ ہی چین میں زیرِ تعمیر چاروں آبدوزیں اب سمندری تجربات کے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اور جلد پاکستان کے حوالے کی جائیں گی۔

    پاکستان اور چین کے درمیان آٹھ ہینگور کلاس آبدوزوں کے حصول کا معاہدہ ہوا تھا۔

    اس معاہدے کے تحت چار آبدوزیں چین میں تیار کی جا رہی ہیں جبکہ باقی چار پاکستان میں کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس لمیٹڈ کے ذریعے ٹیکنالوجی کی منتقلی (ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی) کے تحت تعمیر ہوں گی۔

    یہ آبدوزیں جدید ہتھیاروں اور سینسرز سے لیس ہوں گی جو دور سے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہینگور کلاس آبدوزوں کو خطے میں امن اور استحکام قائم رکھنے کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

    لانچنگ کی تقریب میں دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، جس سے پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی اور تکنیکی تعاون کی عکاسی ہوتی ہے۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق یہ پیش رفت پاکستان نیوی کی صلاحیتوں میں ایک بڑا اضافہ ہے اور مستقبل میں اس کے بحری دفاع کو مزید مضبوط کرے گی۔

  14. ’چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے استعفے کے لیے دباؤ ڈالا‘، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کا دعویٰ

    مبینہ جعلی ڈگری سے متعلق ایک مقدمے کا سامنا کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر پر کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے اپنی درخواست میں چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے بارے میں جسٹس جہانگیری نے الزام عائد کیا کہ انھوں نے ڈگری کیس پر ان سے بات کی اور یہ بھی تسلیم کیا کہ اس مقدمے کو جلد سننے کے لیے ان پر شدید دباؤ ہے۔

    چیف جسٹس یا اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ابھی تک جسٹس جہانگیری کے الزامات سے متعلق کوئی تبصرہ کیا مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔

    جسٹس طارق جہانگیری نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے بھی چیف جسٹس کے خلاف شکایت درج کرا دی ہے کہ انھوں نے ایک زیر التوا مقدمے کے بارے میں ان سے اور ’کچھ دیگر لوگوں‘ سے رابطہ کیا اور عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔

    جسٹس جہانگیری کے مطابق چیف جسٹس نے انھیں بلاواسطہ اور بلواسطہ تجویز دی کہ وہ ’پوسٹ ڈیٹ‘ استعفیٰ دے کر چیف جسٹس کے حوالے کر دیں تاکہ دباؤ کم ہو جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیر التوا مقدمے پر بات کرنے کے بعد چیف جسٹس بینچ میں بیٹھنے کے اہل نہیں رہے۔

    جسٹس طارق جہانگیری نے استدعا کی ہے کہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر بینچ سے الگ ہو جائیں کیونکہ زیر التوا مقدمے پر بات چیت کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کو دباؤ کے باوجود ضابطہ اخلاق پر عمل کرنا چاہیے تھا لیکن انھوں نے اپنے ساتھی جج پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کو ترجیح دی۔

    جسٹس طارق جہانگیری نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں باضابطہ شکایت دائر کر دی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس ڈگری کیس کی سماعت سے معذرت کریں۔

    اسی مقدمے میں جسٹس طارق جہانگیری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین الگ درخواستیں بھی دائر کی ہیں۔ ان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے، جواب جمع کرانے کے لیے وقت دیا جائے اور سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کے فیصلے تک کیس ملتوی کیا جائے۔

    یہ درخواستیں وکلا اکرم شیخ اور بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے دائر کی گئی ہیں۔

    جعلی ڈگری کا معاملہ کب منظر عام پر آیا؟

    دس جولائی سنہ 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکیل میاں داؤد ایک درخواست دائر کرتے ہیں جس میں مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ انھیں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری سے متعلق کچھ ایسی معلومات ملی ہیں جس سے انھیں شک ہے کہ مذکورہ جج کی قانون کی ڈگری جعلی ہے لہٰذا اس معاملے کی تحققیات کروائی جائیں۔

    اس درخواست پر رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراض لگایا جاتا ہے اور 11 جولائی کو اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق اس درخواست پر لگائے گئے اعتراضات کی سماعت کرکے فیصلہ محفوظ کرلیتے ہیں۔ تاہم اس درخواست پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اور جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے یہ معاملہ موجودہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو بھیجا۔

    جسٹس جہانگیری کی جعلی ڈگری کو لے کر کچھ وکلا سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرتے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ اس پر سٹے ارڈر جاری کر دیتی ہے جس کے بعد اس وقت کی اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت بھی اس میں فریق بن جاتی ہے۔

    ابھی سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کیا گیا حکم امتناع برقرار تھا کہ اس ہی دوران 22 ستمبر کو سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایک درخواست آتی ہے کہ جج صاحب کی ڈگری کو لے کر ہماری ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے اس لیے حکم امتناع میں نہ صرف انھیں فریق بنایا جائے بلکہ اس معاملے کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

    سندھ ہائی کورٹ میں پہلے یہ درخواست 30 ستمبر اور پھر اس سماعت کی تاریخ 25 ستمبر مقرر کر دی جاتی ہے۔

    جسٹس طارق محمود جہانگیری اپنی ساتھی جج جسٹس ثمن رفعت کے ساتھ اس درخواست کے سماعت کے لیے اسلام آباد سے کراچی گئے اور انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جج کے کے آغا کی سربراہی میں قائم دو رکنی آئینی بینچ کو اس درخواست میں فریق بننے کی استدعا کی۔

    انھوں نے موقف اپنایا کہ چونکہ اس معاملے کا تعلق ان کی ڈگری سے ہے، اس لیے انھیں سنا جائے۔ تاہم عدالت نے یہ کہہ کر جسٹس جہانگیری کی درخواست کو مسترد کردی کہ پہلے زیر سماعت درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا اور اگر درخواست کو قابل سماعت ہوئی تو اس کے بعد ہی ان کا موقف سنا جائے گا۔ اس پر جسٹس جہانگیری اور کمرہ عدالت میں موجود وکلا نے احتجاج کیا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔

    بعد ازاں عدالت نے زیر سماعت درخواست کو عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دیا۔

    سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست خارج کیے جانے کے بعد کراچی یونیورسٹی نے مذکورہ جج کی ڈگردی کے متعلق ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ اگست 2024 میں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں طارق محمود کا ایل ایل بی کا انرولمنٹ نمبر 7124/87 اور سیٹ نمبر 22857 کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ جج پر تین سال کے لیے کسی بھی لا کالج میں داخلے اور یونیورسٹی کے کسی بھی امتحان میں بیٹھنے پر پابندی ہوگی۔

    کراچی یونیورسٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ جسٹس جہانگیری کبھی بھی اسلامیہ لا کاج کے سٹوڈنٹ نہیں رہے۔

    اس وقت جسٹس جہانگیری کے خلاف اس مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کا دو رکنی بینچ کر رہا ہے جس کی سربراہی خود عدالت کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کر رہے ہیں۔

  15. عمران خان کو فوری طور پر اہلِ خانہ اور وکلا تک رسائی دی جائے: ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر پُرامن مظاہرین کے خلاف حکام کی جانب سے بار بار ہائی پریشر واٹر کینن کا استعمال پُرامن اجتماع کے آئینی حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔

    انسانی حقوق پر کام کرنے واالی تنظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے حکام کو عوام کے پُرامن احتجاج کے حق کا احترام کرنا چاہیے اور طاقت کے غیر متناسب اور سزا دینے والے طریقوں کو ختم کرنا چاہیے۔

    ایمنسٹی کے مطابق گذشتہ شب راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان سے عدالتی حکم کے باوجود ملاقاتوں کی بار بار انکار کے خلاف دیے گئے پُرامن دھرنے کو ایک مرتبہ پھر واٹر کینن کے ذریعے منتشر کر دیا گیا۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ شدید سردی میں استعمال کیے گئے پانی میں کیمیائی مواد بھی شامل تھا۔

    انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے مطابق بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق واٹر کینن صرف اُس وقت استعمال کیے جا سکتے ہیں جب بڑے پیمانے پر عوامی بدامنی یا تشدد کی صورتحال ہو۔

    ایمنسٹی کے مطابق ان اقدامات نے پُرامن مظاہرین کی سلامتی اور عدالتی حکم کی عدم تعمیل پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے تشدد نے عمران خان کی 23 گھنٹے طویل قید تنہائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بین الاقوامی معیار کے مطابق نفسیاتی تشدد کے مترادف ہے۔

    تنظیم کے مطابق اہلِ خانہ اور قانونی مشیروں سے ملاقاتوں کی پابندی پاکستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں، بشمول آئی سی سی پی آر اور انصاف کے تقاضوں، کی خلاف ورزی ہے۔

    ایمنسٹی کے مطابق منڈیلا رولز کے مطابق اہلِ خانہ سے ملاقات پر پابندی کو بطور سزا یا تادیبی اقدام استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان کو فوری طور پر اہلِ خانہ اور قانونی مشیروں تک رسائی دی جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ حراست کی تمام شرائط بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کے مطابق ہوں۔

  16. اڈیالہ جیل کے قریب علیمہ خان کا دھرنا، 14 ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور

    راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان کے دھرنے کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ جج امجد علی شاہ نے 14 ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انھیں پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

    یہ افراد گذشتہ رات گرفتار کیے گئے تھے اور عدالت میں پیش کیے گئے۔ اس مقدمے میں تھانہ صدر بیرونی نے 35 نامزد ملزمان سمیت تقریباً 400 افراد کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت شامل کیا ہے۔ مقدمے میں علیمہ خان، ڈاکٹر عظمیٰ، نورین نیازی، قاسم خان، سلمان اکرم راجہ اور عالیہ حمزہ کے نام بھی درج ہیں۔

    پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی، پولیس پر حملے اور ریاست کے خلاف مجرمانہ سازش کی منصوبہ بندی کے الزامات ہیں۔

    مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی، سڑک بلاک کی اور عوام کو مشکلات میں ڈالا۔

    پولیس کے مطابق ملزمان نے کارکنان کو اشتعال دلایا، کارِ سرکار میں مداخلت کی، پولیس پر پتھراؤ اور بوتلیں پھینکیں، جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھٹ گئیں۔

    تحریک انصاف کی جانب سے ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس کے احتجاج پُرامن ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے پولیس پر تشدد اور واٹر کینن کے استعمال کے الزامات عائد کیے ہیں۔

  17. پاکستان میں گڈز ٹرانسپورٹرز کی ملک گیر ہڑتال سے برآمدات کی ترسیل اور سپلائز متاثر, تنویر ملک، صحافی

    پاکستان میں گڈز ٹرانسپورٹرز کی جانب سے گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی ملک گیر ہڑتال تاحال جاری ہے، جس کے باعث ملک کا تجارتی شعبہ شدید متاثر ہوا ہے۔

    حکومت کی جانب سے گزشتہ دو روز سے جاری مذاکرات بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز نے اب تک گاڑیاں سڑکوں پر نہیں لائیں۔

    اس احتجاج کے باعث صنعتی اور تجارتی شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ ملک بھر کے تجارتی و صنعتی چیمبرز نے ہڑتال کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پیداواری نقصانات اور برآمدات متاثر ہونے کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

    گڈز ٹرانسپورٹ کی تنظیموں نے وفاقی اور پنجاب حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہڑتال کی ہے۔ ان تنظیموں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سامنے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک ہڑتال جاری رہے گی۔

    وفاقی حکومت سے مطالبات

    گڈز ٹرانسپورٹ تنظیموں نے وفاقی حکومت سے درج ذیل مطالبات کیے ہیں:

    • گاڑیوں پر وزن لادنے کی حد میں اضافہ۔
    • کسٹم حکام کی جانب سے گاڑیوں کی ضبطی کا خاتمہ۔
    • موٹروے پولیس کے جرمانے اور ڈرائیوروں سے مبینہ بدسلوکی بند کی جائے۔
    • ملک بھر میں ’ناجائز‘ ٹول پلازے ختم کیے جائیں اور ٹول فیس میں اضافے کو واپس لیا جائے۔
    • نئے ٹرک اسٹینڈز اور پورٹ پر ٹرک پارکنگ کی سہولت فراہم کی جائے۔

    پنجاب حکومت سے مطالبات

    ٹرانسپورٹ تنظیموں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ:

    • پنجاب موٹر وہیکل ایکٹ 2025 کی ترامیم واپس لی جائیں۔
    • گاڑیوں پر عائد بھاری جرمانے ختم کیے جائیں۔
    • ہیوی ٹرانسپورٹ کے لائسنس کے لیے موبائل یونٹ فراہم کیے جائیں۔
    • بڑے شہروں میں ٹرک اسٹینڈز قائم کیے جائیں۔
    • فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے گندم لے جانے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی بند کی جائے۔

    بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ٹرانسپورٹرز نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ پنجاب حکومت کا آرڈیننس ہے، جس کے تحت گاڑیوں پر 2000 سے 3000 فیصد تک جرمانے بڑھا دیے گئے ہیں اور ایف آئی آر بھی درج کی جاتی ہے۔

    ٹرانسپورٹر شہباز خان کا کہنا تھا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی چیکنگ کا طریقہ کار سائنسی ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ طریقہ کار میں سائلنسر پر ٹشو پیپر رکھ کر ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جو درست نہیں۔

    ایکسل لوڈ کا تنازع

    ایکسل لمٹ میں اضافے کے مطالبے پر ٹرانسپورٹر ملک جہان خان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن ان کے مطابق یہ درست نہیں اور ٹرانسپورٹ شعبے میں ایک خاص لابی اس کی حامی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایکسل لوڈ کے قانون پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔

    کاروباری برادری کی تشویش

    فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ نے ملک بھر میں جاری ٹرانسپورٹرز کی وہیل جام ہڑتال اور پنجاب حکومت کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازع پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اس ہڑتال کے نہایت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ’بندرگاہوں پر فریٹ فارورڈنگ کا عمل شدید متاثر ہو چکا ہے، جس کے باعث درآمدی سامان بندرگاہوں پر پھنس گیا ہے جبکہ برآمدی آرڈرز کی بروقت ترسیل ناممکن ہو گئی ہے۔‘

    صدر ایف پی سی سی آئی نے مزید کہا کہ خام مال کی بروقت فراہمی نہ ہونے کے باعث صنعتی یونٹس میں پیداوار یا تو مکمل طور پر رک چکی ہے یا شدید سست روی کا شکار ہے۔

  18. طالبان قیادت میں مبینہ اختلافات کی خبروں کے بیچ افغان رہبر اعلیٰ ہبت اللہ اخوندزادہ کا قیادت کو ’لاحاصل اُمور‘ سے گریز برتنے کا انتباہ, بی بی سی مانیٹرنگ

    افغان طالبان کے سربراہ اور ’رہبرِ اعلی‘ ہبت اللہ اخوندزادہ نے طالبان قیادت کے اندر اختلافات سے متعلق تازہ قیاس آرائیوں کے پس منظر میں حکام کو ’غیر ضروری اور لاحاصل معاملات‘ میں الجھنے سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    اس ضمن میں رہبر اعلیٰ کا ایک بیان افغان طالبان کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔

    نائب ترجمان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ہبت اللہ اخوندزادہ نے اس حوالے سے گفتگو قندھار میں منعقد ایک سیمینار کے دوران کی، جس میں طالبان کی وزارتِ داخلہ، ’شہدا و معذور افراد‘، محنت و سماجی امور کے حکام کے علاوہ سرکاری مدارس اور یتیم خانوں سے منسلک حکام نے شرکت کی ہے۔

    اعلامیے کے مطابق ہبت اللہ اخوندزادہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’جب کسی کو کوئی ذمہ داری تفویض کی جائے تو اسے اپنے اختیارات اور فرائض کا ادراک بخوبی ہونا چاہیے۔۔۔‘

    انھوں نے حکام کو ہدایت کی کہ ’آپس میں جھگڑے سے گریز کریں، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں اور اسلام کی تعلیمات کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔‘

    ہبت اللہ اخوندزادہ نے مزید کہا کہ ’فیصلوں اور امورِ کار کی انجام دہی میں شریعت کو ترجیح دی جائے، خود کو شریعت سے بالاتر نہ سمجھا جائے۔ ایک دوسرے کو سچائی اور صبر کی تلقین کریں۔۔۔‘

    انھوں نے تاکید کی کہ ’غفلت اور غیر ضروری امور میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔‘

    نائب ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ سیمینار میں شریک ’علما اور حکام نے ایک بار پھر امیر المومنین (ہبت اللہ) کے ساتھ اپنی بیعت کی تجدید کی اور انھیں یقین دہانی کروائی کہ وہ شریعت پر مبنی نظام کی حمایت اور حفاظت جاری رکھیں گے۔‘

    ہبت اللہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل طالبان کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی نے ایک خطاب میں ایسے جملے کہے تھے جنھیں مبصرین نے اخوندزادہ پر بالواسطہ تنقید قرار دیا تھا۔

    أفغانستان کے صوبہ خوست کی جامع مسجد میں 12 دسمبر کو خطاب کرتے ہوئے سراج الدین حقانی نے کہا تھا کہ ’جب کوئی حکومت، جو عوام کے اعتماد اور محبت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو، خوف اور دہشت پھیلانا شروع کر دے اور اپنے ہی لوگوں کو ڈرائے اور دھمکائے، تو وہ حکومت نہیں رہتی۔‘

    یاد رہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران متعدد افغان تجزیہ کاروں اور افغانستان کے حوالے سے رپورٹنگ کرنے والے میڈیا اداروں نے رپورٹ کیا ہے کہ طالبان کے اندر ہبت اللہ اخوندزادہ کے دھڑے اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان طاقت کی کشمکش جاری ہے۔

    گذشتہ ہفتے افغان طالبان کے نائب وزیرِ داخلہ رحمت اللہ نجیب نے طالبان کے اندر اختلافات سے متعلق ’جھوٹی افواہوں‘ کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان کے ’دشمن‘ (ایسی افواہوں کے ذریعے) بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    طلوع نیوز نے رحمت اللہ نجیب کی جانب سے میدان وردک میں پولیس کی پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کے اقتسابات نشر کیے ہیں۔

    اس موقع پر رحمت اللہ نے کہا کہ کچھ عناصر اسلامی امارت کی قیادت میں تقسیم کی افواہیں پھیلا رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے کہ طالبان رہنما اقتدار اور طاقت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ’میں نے خود تمام رہنماؤں سے ملاقات کی ہے، اور خدا کی قسم اُن میں سے کوئی بھی امیر المومنین (ہبت اللہ) کی جگہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘

    طلوع نیوز کے مطابق انھوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے دشمن افغانستان میں بدامنی پیدا کرنے اور اسلامی نظام پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ انھیں کون سپورٹ کرتا ہے اور کون عوام کو اسلامی امارت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کسی بھی نام سے کام کریں، انھیں جان لینا چاہیے کہ اسلامی امارت کے مجاہدین چوکس اور بیدار ہیں۔‘

  19. انڈین روپے کی قدر میں تاریخی کمی، ڈالر کے مقابلے میں نئی کم ترین سطح پر پہنچ گیا

    انڈین روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کا سلسلہ رواں ہفتے کے دوران بھی جاری ہے اور منگل کے روز اِس کی قدر میں 23 پیسے کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جس کے بعد اب انڈین روپیہ91.01 روپے فی ڈالر کی نئی تاریخی کم ترین سطح پر کھڑا ہے۔

    انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق کرنسی کی قدر میں حالیہ کمی گذشتہ چند ہفتوں میں انڈین روپے کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ گذشتہ دس کاروباری دنوں کے دوران انڈین روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 90 روپے سے 91 روپے کی سطح پر پہنچا ہے۔

    یاد رہے کہ لگ بھگ گذشتہ ایک سال کے دوران روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ رپورٹ ہوئی ہے۔ گذشتہ سال 16 دسمبر کو ایک امریکی ڈالر84.91 انڈین روپے کا تھا جبکہ ایک سال بعد یعنی 16 دسمبر 2025 کو یہ 91.01 روپے کا ہے۔

    • جنوری 2025 میں ایک امریکی ڈالر 86 روپے کا تھا
    • اگست میں امریکی ڈالر 88 روپے کا ہو گیا
    • جبکہ رواں ماہ کے آغاز میں اس کی اوسط 90 روپے کے لگ بھگ رہی ہے

    اور اب انڈین کرنسی اپنی تاریخ کی کم ترین سطح یعنی 91.01 روپے فی ڈالر پر پہنچ گئی ہے۔

  20. پشاور یونیورسٹی کے دو طلبا کی بازیابی کے لیے دھرنا تیسرے روز بھی جاری: ’اگر ان دونوں پر کوئی الزامات ہیں تو انھیں عدالت میں پیش کیا جائے‘

    پشاور یونیورسٹی کے دو طلبا کی گمشدگی کے خلاف آج تیسرے روز بھی احتجاجی دھرنا جاری ہے جس میں دونوں طلبا کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

    دونوں طالب علم عدنان وزیر اور حبیب وزیر 12 نومبر کو پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں کے ساتھ جرگے میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے جب وہ لاپتہ ہوئے۔

    پشاور یونیورسٹی میں تین روز سے جاری احتجاجی دھرنے کے رہنما حمیداللہ خان وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ احتجاجی مظاہرہ اور دھرنا کسی فیڈریشن یا سوسائٹی کی جانب سے نہیں بلکہ یونیورسٹی کے طلبا کی طرف سے ہو رہا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس احتجاج میں یونیورسٹی کی تمام طلبا تنظیمیں شامل ہیں ۔اس احتجاج کی وجہ سے کیمپس کے اندر واقع بیشتر دکانیں، کینٹین اور بازار بند ہیں جبکہ مختلف شعبہ جات میں تدریسی عمل بھی متاثر ہوا ہے۔

    یونیورسٹی کے ترجمان نعمان خان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے دھرنے کے حوالے سے تمام انتظامات کر رکھے ہیں جبکہ 22 دسمبر سے یونیورسٹی نے موسم سرما کی چھٹیوں کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

    حمید اللہ وزیر نے بتایا کہ لاپتہ طلبا عدنان وزیر اور حبیب وزیر پشاور یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس اور انٹرنینشل ریلیشنز ڈپارٹمنٹ کے طالب علم ہیں اور ایک ماہ سے زیادہ وقت ہو گیا ہے کہ ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔

    یاد رہے کہ صوبے میں امن کے قیام کے حوالے سے 12 نومبر کو صوبائی اسمبلی میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور متعلقہ تنظیموں کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ اس جرگے سے واپسی پر پی ٹی ایم کے رہنماؤں سمیت سات افراد کو پشاور کے گنجان آباد علاقے سے نامعلوم افراد زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ لاپتہ ہونے والوں میں ان دونوں طالبعلموں کے علاوہ پی ٹی ایم کے رہنما حنیف پشتین، نوراللہ ترین اور گوہر وزیر کے علاوہ دیگر دو افراد بھی تھے۔

    حمیداللہ وزیر نے بتایا کہ ان کا احتجاج ان دو طلبا کے لیے ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک انھیں منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے اگر ان دونوں پر کوئی الزامات ہیں تو انھیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

    دھرنے کے شرکا کا موقف تھا کہ جرگے میں شریک تمام افراد کی شرکت اور بحفاطت اپنے گھروں تک واپسی کی ذمہ داری جرگہ منتظمین کی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جرگہ صوبائی حکومت کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا لیکن وہ شرکا کو تحفظ فراہم نہیں کر سکے اور ایک ماہ سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود انھیں منظر عام پر نہیں لایا جا سکا ہے۔

    لاپتہ پی ٹی ایم رہنما حنیف پشین کے بھائی ہدایت اللہ ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے جے آئی ٹی کے قیام کا حکم دیا تھا لیکن اب تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بارہا کوششوں کے باوجود خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی سہیل آفریدی سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے حالانکہ وزیر اعلی نے خود کہا تھا کہ وہ اس بارے میں کوششیں کریں گے۔

    یاد رہے کہ وزیر اعلی سہیل آفریدی نے اس جرگے کے بعد لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات کا اعلان کیا تھا۔

    اس واقعے کے چند روز بعد پی ٹی ایم کے وفد کے اغوا کے متعلق ایک صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ جو بندے اغوا ہوئے ہیں وہ جرگے کے مہمان تھے اور جس نے بھی یہ کیا ہے اس نے ہماری پشتون روایات توڑی ہیں۔ ان کا کہنا تھا جس نے بھی یہ کیا ہے وہ نہیں چاہتا کہ خیبر پختونخوا میں امن آئے۔

    وزیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ کور کمانڈر سے بھی کہتے ہیں وہ دیکھیں جس نے بھی یہ کیا ہے اس کا رد عمل سخت آئے گا۔

    خیال رہے کہ پختون تحفظ موومنٹ کے بیشتر اہم اراکین ان دنوں یا تو گرفتار ہیں اور یا وہ منظر عام سے غائب ہیں تاہم ان ان کے بیانات سوشل میڈیا پر ضرور اکثر و بیشتر سامنے آتے رہے ہیں۔

    منظور پشتین چند ماہ سے منظٌر عام پر نہیں آئے جبکہ علی وزیر سمیت دیگر کچھ قائدین گرفتار ہیں۔ علی وزیر کے قریبی ساتھی بادشاہ خان نے بتایا کہ اس وقت علی وزیر صوبہ سندھ کے شہر سکھر کی جیل میں ہیں جبکہ پی ٹی ایم کے ایک اور رہنما دادو جیل میں قید ہیں۔