|
کونسی ڈِ کشنری سب سے اچھی؟ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
انگریزی سیکھنے والے طالبِ علم اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ لفظوں کا مطلب آسان اور واضح زبان میں سمجھنے کے لئے ہمیں کونسی ڈکشنری استعمال کرنی چاہیئے۔ جِتنا سادہ اور آسان یہ سوال ہے، اسکا جواب اتنا ہی مشکل ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں کوئی بھی ایسی انگریزی ۔ اُردو لُغت موجود نہیں ہے جو ابتدائی طالب علموں کی تمام ضروریات پوری کر سکے۔ بشیر احمد قریشی نے آج سے کوئی نِصف صدی پہلے جو لُغت مرتب کی تھی اس میں انگریزی کے مشکل الفاظ کا مطلب آسان انگریزی میں درج تھا اور ساتھ ہی اُردو میں بھی اسکی تشریح موجود تھی۔ اِدارہ کتابستان کی جانب سے شائع شدہ یہ ڈِ کشنری طالب علموں کی تین نسلیں استعمال کر چُکی ہیں اور یہ بات قدرے افسوس سے کہنی پڑے گی کہ بارھویں جماعت تک کے طلباء کے لئے آج بھی مارکیٹ میں اس سے بہتر انگریزی ۔ اُردو ڈِکشنری موجود نہیں ہے۔ حالانکہ پچھلے اڑتالیس برس میں دُنیا کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے، سائینس اور ٹیکنالوجی کی نئی دریافتوں نے ہزاروں نئے لفظوں کو جنم دیا ہے اور کمپیوٹر نے تو انگریزی زبان کا حُلیہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ 1998 میں بشیر احمد کی ڈِکشنری کو نئے الفاظ کے ایک ضمیمے کے ساتھ پھر سے شائع کیا گیا لیکن کسی بھی زندہ زبان کا ارتقاء بڑی تیزی سے ہوتا ہے۔ کئی فیشنی الفاظ بڑے طمطراق سے زبان کی سلطنت میں داخل ہوتے ہیں لیکن وہاں کا صوتیاتی ڈھانچہ یا عمومی لسانی مزاج بہت سے نئے لفظوں کو قبول نہیں کرتا اور اپنی سلطنت سے باہر پٹخ دیتا ہے، جبکہ عالمی میڈیا کے توسط سے آنے والے کئی نئے الفاظ کو خوش آمدید کہہ کر قبول کر لیتاہے۔ انگریزی قوم کا عمل دخل صدیوں تک ساری دُنیا میں رہا ہے چنانچہ انگریزی زبان نے بھی دُنیا کی ہر معاشرت سے رس حاصل کیا ہے۔اگرچہ برطانوی سامراج کا سورج ڈوب چکا ہے لیکن امریکہ کی اقتصادی اور عسکری عمل داری کا سکہ ساری دُنیا پہ چل رہا ہے۔ جو ممالک براہِ راست امریکہ کے زیرِ اثر نہیں ہیں وہ بھی انگریزی زبان کے اثر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اس عالمی اثر و رسوخ کے باعث انگریزی کے سرمایہء الفاظ میں ہر وقت بیش بہا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ ہر ڈِ کشنری کو کچھ عرصے کے بعد ایک نئے ایڈیشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈاکٹر ایس ڈبلیو فیلن نے 1883 میں جو انگریزی ۔ اُردو ڈِِکشنری مرتب کی تھی وہ نہ صرف اپنے زمانے میں لغت نویسی کا ایک کارنامہ تھی بلکہ آج بھی کلاسیکی الفاظ اور محاوروں کا مطلب جاننے کے لئے ایک اہم ذریعہ تصّور کی جاتی ہے۔ اسی طرح مولوی عبدالحق کی انگریزی ۔ اُرود لغت جوکہ 1916 میں شائع ہوئی، ایک زبر دست تاریخی دستاویز ہے۔ بشیر احمد قریشی نے 1957 میں جب کتابستان کے لئے لغت مرتب کی تو فیلن اور عبدالحق سے پورا استفادہ کیا لیکن ساتھ ساتھ لغت نویسی کے نئے تقاضوں کو بھی پورا کیا۔ جیسا کہ شروع میں کہا گیا تھا، بشیر احمد کی ڈِکشنری اعلیٰ ثانوی درجوں تک تو کام دے سکتی ہے لیکن بی۔ اے اور ایم۔ اے کی سطح کے الفاظ اس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ خود بشیر احمد نے اعلیٰ درجوں کے طلباء کو انگریزی کی دو لُغات سے استفادے کا مشورہ دیا تھا یعنی: ظاہر ہے یہ دونوں ڈِکشنریاں اِنگلش ٹو انگلش ہیں۔ اول الذ کر میں لفظوں کا پس منظر اور اِشتقاق بھی دیا گیا ہے ۔۔۔ یعنی یہ وضاحت کی گئ ہے کہ لفظ کن زبانوں سے ہوتا ہوا انگریزی تک پہنچا ہے۔ دوسری ڈِکشنری میں الفاظ کے عملی استعمال پر توجہ دی گئی ہے اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں استعمال کر کے معانی کی تمام جہتیں واضح کی گئی ہیں۔ چونکہ اِن دونوں ڈِ کشنریوں میں تمام تر وضاحتیں انگریزی میں کی گئی ہیں اس لئے اُردو داں طبقے کو عرصہء دراز سے ایک ایسی لغت کی ضرورت تھی جس میں اعلیٰ علمی ادبی اور تکنیکی الفاظ کے اُردو متبادلات فراہم کئے گئے ہوں۔ چند برس پہلے اُردو لینگوج اتھارٹی اسلام آباد نے اِس کام کا بیڑہ اٹھایا اور جمیل جالبی کی نگرانی میں ’ قومی انگریزی ۔ اُردو لغت‘ مرتب ہوئی۔ چونکہ یہ اصل میں ویبسٹر کی امریکی ڈِکشنری کا ترجمہ ہے اس لئے سبھی لفظوں کی توضیح و تشریح امریکی انداز میں کی گئ ہے، حتیٰ کہ سیدھے سادے لفظوں کو بھی پیچیدہ عبارت کی بھینٹ چڑھادیا گیا ہے۔
مثلاً انگریزی کے لفظ ’ پیسٹری ‘ کو لیجئے جسکا مطلب مولوی عبدالحق نے صرف دو لفظوں میں بیان کر دیا تھا، یعنی ’ چھوٹا کیک‘ لیکن جمیل جالبی کی ڈِ کشنری میں پیسٹری کا مطلب یوں بیان کیا گیا ہے۔ ’ خشک تنور میں پکائی ہوئی ایک میٹھی غذا جسے گندھے ہوئے گالے دار میدے یا کسی ایسی لُبدی سے جس میں گندھا ہوا میدہ جزوِاعظم ہو، پخت کر کے بنایا جاتا ہے.......‘ بیان اس کے بعد بھی جاری ہے۔ لیکن نمونے کے لئے اتنی ہی عبارت کافی ہے۔ اس قومی لغت میں کچھ سائنسی اور تکنیکی الفاظ کے بہت اچھے اور معیاری اُردو متبادلات بھی درج ہیں لیکن اکثر جگہوں پر کوئی متبادل اُردو لفظ دینے کی بجائے محض تشریح کر دی گئی ہے۔ یک لفظی اُردو متبادلات کی کمی کے باعث یہ ڈِکشنری پیشہ ور مترجمین کے لئے زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئی۔ امریکی حُُلیے کی اِس ڈِکشنری کے مقابل ابھی پچھلے ہی سال ایک برطانوی ڈِکشنری بھی میدان میں آ گئ ہے یعنی: Concise Oxford English – Urdu Dictionary اِس کو بڑی محنت اور عرق ریزی سے شان الحق حقی نے مرتب کیا ہے۔ دوہزار ایک سو صفحات پر مشتمل ’ آ کسفورڈ انگلش ۔ اُردو ڈِکشنری‘ میں انگریزی کے تقریباً سوا لاکھ الفاظ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اور اسکی تیاری پر بارہ سال کی طویل مُدت صرف ہوئی ہے۔ اگرچہ مُرتبین کا دعویٰ ہے کہ یہ اب تک کی سب سے مکمل انگلش ۔ اُردو لغت ہے لیکن اِس میں یک لفظی اُردو متبادلات کی کمی پھر بھی محسوس ہوتی ہے۔ ثانوی درجوں سے اوپر کے وہ طلباء جو بشیر احمد قریشی کی ڈِ کشنری کو اپنی ضروریات کے لئے کافی نہیں سمجھتے انھیں اے۔ایس ہارن بی کی مرتب کردہ Oxford Dictionary for Advance Learners استعمال کرنی چاہیئے۔ حال ہی میں معروف طباعتی اِدارے ’ لانگ مین‘ نے ایک نئی طرز کی ڈِکشنری مرتب کی ہے جسے انھوں نے ’ پروڈکشن ڈِکشنری‘ کا نام دیا ہے۔ یہ ڈِکشنری لفظ کا مطلب بتانے کی بجائے مطلب کا لفظ بتاتی ہے۔ Longman's Language Activator اگر آپ یہ مضمون اپنے کمپیوٹر کی سکرین پر پڑھ رہے ہیں تو یقیناً انٹر نیٹ تک آپکی رسائی ہے اور کمپیوٹر پہ کام کرتے ہوئے اگر آپ ڈِکشنری کھولنے کی زحمت نہیں کرنا چاہتے تو www.dictionary.com کا بٹن دبائیے، فوراً ایک نیٹ ڈِکشنری کھُل کر آپ کے سامنے آجائے گی۔ آپ مشکل لفظ ٹائپ کر دیجئے اور ’ گو‘ کا بٹن دبائیے، لفظ کے سارے ممکنہ مفاہیم آپ کے سامنے آجائیں گے۔ اس ڈِکشنری کے ساتھ ہی تھیسارس بھی موجود ہے۔ یعنی ہم معنی اور متُضاد المعنی لفظوں کی فہرستیں آپ کے سامنے کُھل جائیں گی۔ اگر آپ تھیسارس کے تصوّر سے واقف نہیں ہیں تو ہمارے اگلے مضمون کا انتظار کیجئے جس میں ہم تھیسارس کے استعمال کا طریقہ بتائیں گے اور ِاس وقت مارکیٹ میں انگریزی کے جو تھیسارس موجود ہیں ان کا جائزہ بھی لیں گے۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||