Friday, 18 November, 2005, 10:36 GMT 15:36 PST
برطانیہ میں ایک رکن پارلیمان نے کہا ہے کہ کزنز کے درمیان شادیوں پر پابندی عائد کر دینی چاہیے۔
بی بی سی کے پروگرام نیوزنائٹ میں دکھائی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں پاکستانی نژاد خاندانوں میں جینیاتی بیماریوں والے بچے پیدا ہونے کی شرح عام آبادی کے مقابلے میں تیرہ گنا زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں تقریباً پچپن فیصد پاکستانی نژاد افراد کی شادیاں اپنے کزنز سے ہوتی ہیں۔
برطانوی رکن پارلیمان این کرائیر کہ کہنا ہےکہ برطانیہ میں پاکستانی برداری کو ایک مختلف ترز زندگی اپنانا ہوگا اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شادیاں اپنے خاندانوں سے باہر کرنا ہوگی۔
آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا کزنز کے درمیان شادیوں پر پابندی عائد کر دینی چاہیے؟ کیا اس سے روایتی خاندانی ڈھانچے پر برا اثر پڑے گا یا پھر کیا یہ موقف طبی نقطہ نظر سے صحیح ہے؟
رشید احمد
آج شب نامے میں شفیع نقی صاحب نے اس خوبصورت انداز میں رائے بھیجنے کی تحریک کی کہ خودبخود دل چاہا کہ کچھ نہ کچھ ضرور لکھوں۔ تو میری گزارش ہے کہ شب نامے میں روزانہ کھیل کی خبریں ضرور شامل کریں۔
عباس ظفر، امریکہ:
اسلام میں ہر اس چیز کی ممانعت ہے جس کے کرنے سے انسان کو نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے اگر اس میں حرج ہوتا تو یہ بھی اسلام میں منع ہوتا۔
تلاوت بخاری، کیمل پور، پاکستان:
میرا ذاتی تجربہ تو اس رائے کے خلاف ہے۔ اب ہندوؤں میں تو ان کی گوتی میں بھی شادی نہیں ہوتی مگر ان کی صحت بھی کوئی قابلِ رشک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کزنز کی شادیوں کے فائدے بھی ہیں۔
عرفان خان، کراچی، پاکستان:
شادی کرنا ہر انسان کا ذاتی مسئلہ ہے، اس میں کسی انسان، حکومت یا معاشرے کو مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ خاندان میں فائدہ یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں دیکھے بھالے ہوتے ہیں۔
گوہر، فیصل آباد، پاکستان:
میری کوئی کزن یو کے میں نہیں ہے اس لیے کزن کے ساتھ شادی نہیں ہونی چاہیے۔
عمران نوکیا، جاپان:
میرے خیال میں جو یہ بات کر رہے ہیں ان کی کزن نے شادی سے منع کر دیا ہو گا۔ اب وہ غصے میں یہ پابندی ہم پر ڈال رہے ہیں۔
کرن مرزا، کینیڈا:
او بی بی سی، وہ ونی کے مسئلے پر بھی تو پوچھیں ناں۔ وہاں پر بھی تو ہمارے ملک کی بچیوں کی زندگیوں کا سوال ہے جو غلط روایتوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
فاؤو قویر، امریکہ:
کزن سے شادی جائز ہے۔
ظہیر اقبال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاکستان:
جو جس سے پیار کرتا ہے شادی اسی سے ہی ہونی چاہیے۔ بیماریاں تو معاشرے میں ہر جگہ ہوتی ہیں۔
خرم اسلام، لاہور، پاکستان:
جہاں تک موروثی بیماریوں کا تعلق ہے، یہ ہمارے لیے بہتر ہے کہ کزنز سے شادیاں نہ کریں، لیکن یہ منع نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی کی کئی مجبوریاں ہیں۔
طاہر محمود:
بنیادی حقوق ضبط کرنے کے مترادف ہے۔
ندیم رحمٰن، مظفرگڑھ، پاکستان:
شہد کی مثال آپ کے سامنے ہے، اس میں موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔ اب جو قرآن پر یقین رکھتے ہیں وہ شوگر میں بھی اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن موجودہ ڈاکٹر اس سے منع کرتے ہیں۔ اسی طرح جو ایمان رکھتے ہیں وہ کزنز سے شادی کر سکتے ہیں۔
شہزاد شہزادہ، پاکستان:
یہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کے ساتھ زیادتی ہے۔
علیم اختر، گجرات، پاکستان:
مجھے تو یہ بیماریاں جینیاتی مسئلے کی بجائے غیر فطری اور غیر مہذب جنسی تعلقات کا نتیجہ لگتی ہیں، کبھی سائنس نے اس زاویے سے نہیں سوچا؟ آخر صدیوں سے کزنز کے درمیان شادیاں ہو رہی ہیں، یہ مسئلہ اب کیوں پھیل رہا ہے اور وہ بھی زیادہ تر مغربی ملکوں میں۔
کلیم ورک، امریکہ:
میری اپنی کزن کے ساتھ شادی ہوئی ہے لیکن کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس لیے اس میں کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ یہ بہتر ذہنی ہم آہنگی کے لیے مدد گار ہے۔
فرقان علی، ناظم آباد، پاکستان:
یہ ایک مذاق ہے۔
محمد الیاس، لاہور، پاکستان:
سب سے اہم یہ ہے کہ دونوں والدہ کی طرف سے فرسٹ کزن ہیں یا رشتہ دار ہیں۔ لیکن میرے خیال میں کزنز کی شادیوں میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس سے خاندان مضبوط رہتے ہیں۔
سجل احمد:
مجھے آج تک کزنز کی شادیوں کی وجہ سے کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔ بیماریاں اور صحت تو اللہ کی دین ہے۔ میری دور کی ایک کزن کی شادی اجنبی لوگوں میں ہوئی تھی لیکن اس کے بچوں میں پیدائشی بیماری تھی۔ کسی بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔
واجد خٹک، کرک، پاکستان:
زیادہ تر لوگ اپنی کزنوں سے شادی کرنا چاہتے ہیں اس لیے یہ پابندی غلط ہے۔
جمیل مقصود، بیلجیم:
سوال کزنز کی شادیوں کو روکنے کا نہیں بلکہ زبردستی کی شادیوں کو روکنے کا ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، میں اس سے متفق ہوں۔
خان پٹھان، کینیڈا:
پاکستان میں موروثی بیماریاں اس لیے سامنے نہیں آئیں کہ وہاں علاج کا کوئی نظام نہیں ہے۔ یہ تحقیق کچھ سوچ سمجھ کر ہی شائع کی گئی ہے۔ ہاکستان میں برادری سسٹم کی شادیوں میں یہ خرابی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔
حسین شاہ، سوات، پاکستان:
یہ درست ہے کہ ہمارے مذہب میں اس کی ممانعت نہیں ہے لیکن پیغمبرِ اسلام نے کہا ہے کہ اپنے تعلقات کو بڑھاؤ۔ اس لیے خاندان سے باہر شادیاں کرنی چاہئیں۔ اس طرح ہم تعلقات بڑھانے کے علاوہ بیماریوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔
سید محمد علی، مانسہرہ، پاکستان:
عیسائیوں کے کیتھولک فرقے میں کزن سے شادی حرام ہے۔ اگر وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں تو کزن سے شادی نہ کریں۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کرے۔ ایسا قانون لانے کے لیے انہیں اپنے آئین میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔
شاہ شفیق، اٹک، پاکستان:
پاکستان میں 80 فیصد شادیاں کزنز میں ہوتی ہیں لیکن موروثی بیماریاں بڑے پیمانے پر سامنے نہیں آئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بیماریاں کزنز میں شادیوں کی وجہ سے نہیں۔ اسلام دینِ فطرت ہے، وہ بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔ پابندی کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔
نامعلوم:
پاکستانیوں کو برٹش معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش ہے۔
قیصر عباس، سپین:
یہ اچھی بات نہیں ہے۔
عمران، امریکہ:
یہ مسئلہ اگر سچ ہے تو وقتی ہے۔ ماضی میں تو یہ کبھی سامنے نہیں آیا۔ باقی رہا موروثی بیماریوں کا علاج تو یہ بھی اب دور کی بات نہیں ہے۔ جینوم پراجیکٹ 1998 میں مکمل ہو چکا ہے اور لاتعداد کمپنیاں جینوتھراپی پر تحقیق کر رہی ہیں۔ اس سے کینسر اور ایڈز کا علاج بھی ممکن ہے۔ اللہ اگر کوئی بیماری پیدا کرتا ہے تو اس کے علاج کا سبب بھی پیدا کر دیتا ہے۔ آج سے پندرہ سال بعد یہ سوال بھی بے معنی ہو گا۔
محمد عرفان، سپین:
یہ ایک مذاق ہے۔
نجف علی، بھکر، پاکستان:
شادی خاندان میں ضروری ہے۔
عمران زیدی، واشنگٹن، امریکہ:
میں اس پر بالکل یقین نہیں رکھتا کہ کزنز کی شادی میں کوئی برائی ہے، اس کی چند وجوہات یہ ہیں: میرے خاندان میں بے شمار کزنز کی شادیاں ہوئی ہیں۔ میں خود بھی کزنز کی شادی کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اگر اس میں کوئی برائی ہوتی تو پیغمبرِ اسلام اپنی بیٹی کی شادی کزن کے ساتھ نہ کرتے۔
عبدالوحید، میری لینڈ، امریکہ:
ہم مسلمانوں کو مغرب کی طرف سے آنے والی ہر چیز کو رد کرنا چھوڑ دینا چاہیے، خاص طور پر اگر وہ سائنسی لحاظ سے ثابت شدہ ہو۔ جب جدید ٹیکنالوجی کی بات آتی ہے جس سے ہمیں فائدہ ہوتا ہو تو ہم اسے فوراً اپنا لیتے ہیں۔ مثلاً موبائل فون کو ہی دیکھ لیں۔ اسلام علم اور حکمت حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔ اگر سائنس کزنز کی شادیوں کو نقصان دہ ثابت کرتی ہے تو ہمیں جہاں تک ممکن ہو اس سے خود ہی بچنا چاہیے۔ میں حکومت کے ایسا قانون بنانے کے خیال سے اتفاق نہیں کرتا۔
عطیہ عارف، کینیڈا:
لوگ طرح طرح کی رائے دیں گے، کوئی ہاں کہے گا تو کوئی نہ۔ مگر حقیقت کا بہت لوگوں کو علم ہے کہ اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں۔ اولاد خدا کی دین ہے اور بچوں کی معذوری کی وجہ ہرگز کزنز کے ساتھ شادی نہیں ہے۔ اور یہ رکنِ پارلیمنٹ مسلمان نہیں عیسائی ہیں، ان کی بات کی کوئی اہمیت نہیں۔
ساجد شاہ، یو کے:
کزن سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔
سید شاہ، کینیڈا:
سب سے بڑا مرض وہم ہے۔ اگر کزن سے شادی کرنے میں کوئی نقصان ہوتا تو اسلام میں اس کی ضرور ممانعت ہوتی۔
افتخار احمد، دوحہ، قطر:
یہ بالکل صحیح مشورہ ہے اگر اس پر عمل ہو تو، یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ جس کو ہم بہن کہتے ہیں اسی سے شادی کر لیتے ہیں۔ میرے خیال میں ماں یا باپ کی طرف سے جو کزن کا رشتہ بنا ہے اس سے شادی پر پابندی ہونی چاہیے۔ اس طرح انسان دوسرے خاندان کے ساتھ رشتے جوڑے گا اور انسانیت سیکھے گا، اپنی برادری کی اندھی سپورٹ نہیں کرے گا۔
سعید رانا، اسلام آباد، پاکستان:
جس چیز کو اسلام نے حلال قرار دیا ہو اس کو کوئی پارلیمنٹ یا ادارہ حرام نہیں کر سکتا، نہ ہی اس پر پابندی لگا سکتا ہے۔ کیا بِنا کزنز کے شادی والے جوڑوں میں بیماریاں نہیں ہوتیں؟ احتیاتی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہئیں لیکن اس حلال عمل کو بالکل بند کر دینا غلط ہے۔
عارف جبار، سندھ، پاکستان:
شادی کس سے کی جائے یہ ہر ایک کی مرضی ہے۔ ایسے قانون کو نافذ کرنے سے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔ یہ پابندی ہر لحاظ سے غلط ہے۔
صفدر عباس نقوی، کراچی، پاکستان:
جی ہاں، طبعی نقطہ نگاہ سے یہ درست ہے کہ آپس کی شادیوں سے جینیاتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر برطانیہ میں جینیاتی بیماریوں کی شرح بڑھ رہی ہے تو پھر پابندی ٹھیک ہے۔ جہاں تک خاندانی اقدار کی بات ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں کہ خاندان سے باہر شادی کی جائے۔
عارف قریشی، ٹانڈو محمد خان، پاکستان:
میرے خیال میں اگر جینیاتی مسئلے سامنے آ رہے ہیں تو اہتیات کرنا چاہیے۔ کزن کے ساتھ شادی میں لازمی مسئلہ ہے۔ سائنس نے اگر کو نقطہ نظر پیش کیا ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے۔ کم از کم میں تو کزن سے شادی کے خلاف ہوں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہاں میں کچھ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اسلام نے شادی کی اجازت دی ہے، مگر شادی باہر بھی تو ہو سکتی ہے۔
افتخار احمد کشمیری، نامعلوم:
کزنز سے شادی ایک روایت ہی ہے۔۔اسلام اس کے لیے مجبور نہیں کرتا۔ اگر اس ی وجہ سے معذور بچے پیدا ہوتے ہیں تو اس کے کنارا کرنا چاہیے۔
ہارون رشید، سیالکوٹ، پاکستان:
ایک ملسمان ہونے کے حوالے سے پہلے میں اسلام کا حوالہ دوں گا۔ اسلام نے کزنز سے شادی کو منع نہیں کیا ہے لیکن ایک جگہ حدیث میں پڑھا کہ ہمیں اپنے خاندانوں سے باہر بھی شادی کرنی چاہیے۔ اور طبعی نگاہ سے دیکھا جائے تو تیسری اور چوتھی نسل میں ایسا ہونے کے خطرے زیادہ ہیں۔
طاہر چودھری، جاپان:
اسلام کے ماننے والوں کو خدا پر پختہ یقین رکھنا چاہیے۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو خدا اپنے بندوں کو اس کام سے ضرور روکتا۔ ہمارا یہ یقین ہے کہ خدا نے اجازت دی ہے تو اگر نقصان ہوگا بھی تو فوائد سے کم۔ ان لوگوں کو آخر مسلمانوں میں ہی نقص کیوں نظر آتے ہیں۔
سعدیہ سلام، بھارت:
رشتہ کے بھائی بہنوں میں شادیاں صرف پاکستانیوں تک محدود نہیں، عام مسلمان معاشرے میں ایسی شادیاں ہوتی ہیں۔ اسلام نے صرف اس کی اجازت دی ہے، ان شادیوں کو ضرور قرار نہیں دیا۔ علم صحت اگر اس کی خرابیاں سامنے لاتا ہے اور سنگین نتائج دکھاتا ہے تو مذہب کے نام پر اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
سامیہ حفیظ، لاہور، پاکستان:
میرے خیال میں تو کزنز سے شادی کرنے سے اور بھی برے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
فواد فراز، امریکہ:
یہ سچ ہے کہ کزنز میں شادی کو رواج بنا لینا نقصان دہ ہو سکتا ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے بغیر شادی کے تعلقات قائم کرنا۔ خیر جب ترکی میں حجاب پر پابندی ہو سکتی ہے، پاکستان میں جمعہ کے خطبے پر پابندی ہو سکتی ہے تو برطانیہ میں یوں ہی صحیح۔۔۔۔
عارف جبار قریشی، سندھ، پاکستان:
شادی کس سے کی جائے یہ ہر ایک کی مرضی ہے۔ ایسے قوانین کو نافذ کرنے سے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔ یہ ہر لحاظ سے غلط ہے۔
شاہ شفیق پرویز، اٹک، پاکستان:
پاکستان میں تقریباً ساٹھ فیصد شادیاں کزنز کے ساتھ ہی ہوتی ہیں، لیکن جینیاتی بیماریاں اتنی بڑی تعداد میں سامنے نہیں آئی۔ اسلام کزن کے ساتھ شادی کی اجازت دیتا ہے اس لیے کسی قسم کی پابندی ممکن نہیں۔
شریف زدران، جرمنی:
میرے خیال میں ہمیں وہی کرنا چاہیے جوہمارے مذہب میں ہے۔ ہمیں قرآن پر عمل کرنا چاہیے ناکہ غیر مذہبوں کی باتوں پر۔ کیونکہ ہمارے اور ان کے مذہب میں بہت فرق ہے۔ رہی شادی کی بات تو ہمارے ملک میں بہت کم لوگ ہیںجو اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں۔
اکبر خان، کراچی، پاکستان:
میں سمجھتا ہوں کہ میڈکل سائنس میں یہ کہیں نہیں کہا گیا ہے کہ کسی خاص کیس کی بنا پر سب ہی ایک ہی انداز سے چلیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس سے ہونے والے مضر صحت وجوہات سے اہتیاتی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ میری اپنی شادی بھی میری مامو زاد بہن سے ہوئی ہے، مگر میں ٹینشن میں نہیں ہوں۔ رہا سوال برطانیہ میں پیچیدگی پیدا ہونے کا تو میڈکل سائنس میں اس کا حل بھی ضرور ہوگا۔
شیر یار خان، سنگاپور:
کزنز کے ساتھ شادی کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ صدیوں سے ایسی شادیاں ہوتی آئی ہیں۔ مگر ایسی شادیوں کا برا اثر صرف اسی وقت ظاہر ہوا جب ایسی شادیوں کو تسلسل سے جاری رکھا گیا ہے۔ کسی بھی نسل میں ایک قریبی کزن سے شادی کے بعد اگر ان کی اولادوں کو کسی دور کے رشتہ داروں سے شادی کرائی جائے، تو خاصہ فرق پڑے گا۔ اس مسئلہ کو صرف برطانیہ کے نقطہ نظر سے پرکھنا درست نہیں، لیکن نظر انداز کرنا بھی غلط ہوگا۔
پٹھان خان، کینیڈا:
ہمارے کلچر میں طلاق کا جو کم رجحان ہے اس کا سبب کزنز میں شادی بھی ہے۔ کوئی میاں بیوی کا مسئلہ ہو تو چاچا، مامو، تایا سب شامل ہو جاتے ہیں اور گھر کا مسئلہ گھر ہی میں طے کر لیتے ہیں۔ جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے تو یورپی، امریکی کلچر میں کزنز سے شادیاں گناہ کے برابر سمجھی جاتی ہیں لیکن پھر بھی وہ لوگ بیمار رہتے ہیں۔ تو بیماریوں کا تعلق کزنز سے جوڑنا بے کار ہے۔ ہمارے خاندان میں اسی فیصد شادیاں کزنز میں ہوئی ہیں اور ستر فیصد لوگ امریکہ اور یورپ میں رہتے ہیں۔ سب صحت مند ہیں اور سب کے بچے بھی۔
مہرین دوسانی، کینیڈا:
رکن پارلیمان سے درخواست ہے کہ وہ کوئی ایسا قانون کیوں نہیں بناتے جس کی رو سے شادی کے بغیر جنسی تعلقات کو خلاف قانون قرار دے دیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے ایڈز جیسی بھیانک بیماریاں ہوتی ہیں۔ مگر ایسا کرنے سے ان کی شخصی آمآدی جو متاثر ہوگی۔ ساری خرابیاں غیر ملکیوں میں ہی نظر آتی ہیں۔
نصرت خان، برطانیہ:
یہ بات اگر ایک رکن پارلیمان نے کہی ہے تو اس کے ساتپ اتفاق کرنا بےوقوفی ہوگی۔ ہاں اگر کسی ماہرڈاکٹر کا کہنا ہے تو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کیونکہ بات تو خاندانوں کی نہیں آنے والی نسلوں کی ہے۔ اور میرے خیال میں خاندانی روایتی ڈھانچے پر اثر پڑنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا کیونکہ کوئی بھی خاندان معذور بچے پیدا کرنا نہیں چاہتا ۔
فرید انور، جرمنی:
میرے خیال میں اپنی کزن سے شادی کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے رابطہ کر لینا چاہیے۔ جینیاتی بیماریوں کے حوالے سے وہی صحیح راستہ دکھا سکتا ہے۔
آفاق احمد، اسلام آباد، پاکستان:
اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن اور سنت کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ اگر نہیں تو پھر آپ کی مرضی۔۔۔کسی کو مذہبی قوانین میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
شاہ زیب خان، جرمنی:
میرے خیال میں یہ ایک اچھا مشورہ ہے۔ اس سے نہ صرف جینیاتی بیماریاں کم ہونگی بلکہ ان لڑکیوں کی بھی مدد ہو جائے گی جنہیں زبردستی اپنے کزنز سے شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، خاص طور پر جب لڑکیاں بیرون ممالک میں مقیم ہوتی ہیں اور کزن آبائی ملک میں۔
جاوید اقبال، چکوال، پاکستان
یہ انتہائی غلط اور بے بنیاد فیصلہ ہے، اور نہ ہی طبعی لحاظ سے اس کی کوئی اہمیت ہے۔ جب اسلام نے اس کی اجازت دے دی ہے تو پھر یہ لوگ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ کزنز کی شادی طبعی لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ کیا حضرت علی اور حضرت فاطمہ آپس میں کزنز نہیں تھے؟ اس قانون کا سب سے زیادہ نقصان غیر ملکیوں کو ہو گا۔
امین اللہ، پاکستان
بیالوجی کا طالب علم ہونے کے لحاظ سے میں یہ کہوں گا کہ یہ بات 100 فیصد درست ہے کہ کزنز میں شادیاں بہت خطرناک ہیں، خاص طور پر مہلک موروثی بیماریوں کی منتقلی کے لحاظ سے۔ اس لیے میں اس سے متفق ہوں۔ بیالوجی کے لحاظ سے رشتہ داروں سے باہر شادیاں زیادہ موزوں ہیں۔
جمال اختر، فیصل آباد، پاکستان
سب سے بڑا مسئلہ تو بے چارے مشرقی لوگوں کا ہے جو وہاں بستے ہیں۔ باقی رہے یو کے والے تو ان کو کوئی مسئلہ نہیں، وہ تو اپنی مرضی کے مالک ہیں جہاں مرضی ہو شادی کر لیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔