BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
آپ کی آواز
وقتِ اشاعت: Friday, 12 August, 2005, 09:54 GMT 14:54 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
آبادکاروں کےانخلا کے خلاف احتجاج
 
غزہ سے انخلاء
منصوبے کے تحت چھ روز کے بعد غزہ سے یہودی آباد کاروں کو باہر نکال دیا جائے گا
غزہ سے یہودی آبادکاروں کے مجوزہ انخلا سے چھ روز پہلے، تل ابیب میں ہزاروں افراد نےاس منصوبے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔

نارنجی رنگ کے لباس میں ملبوس مظاہرین ، تل ابیب میں رابن سکوائر میں اکھٹے ہوئے جہاں کئی مقررین نے مجوزہ منصوبے کی مخالفت میں تقاریر کیں۔

منصوبے کے مخالفین نے حالیہ دنوں میں اپنی احتجاجی تحریک کو تیز کردیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیں گے۔

اس منصوبے کے تحت چھ روز کے بعد غزہ سے یہودی آباد کاروں کو باہر نکال دیا جائے گا۔

آباد کاروں کی تحریک کے حامیوں کو ایسے پمفلٹ بھی تقسیم کئے گئے جن پر ہدایات دی گئیں تھیں کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کو روکنے کے لئے انہیں کہاں پہنچنا چاہئیے۔

آپ کو کیا لگتا ہے کیا اس منصوبے کے تحت ہونے والا انخلاء پر امن طور پر مکمل ہو جائے گا؟ کیا یہ محدود انخلاء خطے میں امن کی طرف پہلا اور اہم قدم ثابت ہوگا؟ یہ منصوبہ مذاکرات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اسرائیل کی طرف سے یکطرفہ طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس سے مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں کیا اشارہ ملتا ہے؟

آپ کی رائے

اب یہ فورم بند ہو چکا ہے۔ قارئین کی آراء نیچے درج ہیں۔


شہوار اکبر، پاکستان:
ہر چند کہ یہ نامعقول قدم مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن پس منظر کو دیکھتے ہوئے اسے ایک خوش آئند قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

مظفر نواز چیمہ، پاکستان:
بات صرف اتنی سی ہے کہ مسلمان وقت کی جنت میں رہ رہے ہیں اور خوابِ غفلت سے اٹھنا نہیں چاہتے۔ جب اندر شعور نہیں رہتا تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے فلسطینی شاید یہی چاہتے ہیں۔۔ ہر جھوٹے وعدے پر اعتبار کر لیتے ہیں۔

آغاقزلباش، امریکہ:
جب ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان سے مخلص نہیں تو یہودیوں سے کیا امید باندھنا۔

فیصل چانڈیو، پاکستان:
ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ اسرائیل کو قبول کر لو، لیکن کبھی کسی نے اسرائیلیوں کو بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو قبول کر لیں۔

فہیم، امریکہ:
اسرائیل ہمیشہ ایک انچ زمین دے کر دس انچ لیتا رہا ہے، یعنی ہڈی دے کر بوٹی چھین لو، دیکھو اب کب کہاں سے بوٹی چھینتا ہے۔

ظہیرالدین راشدی، پاکستان:
اگر اسرائیل کا منصوبہ اخلاص پر مبنی ہے تواسے امن کی جانب ایک قدم قرار دیا جا سکتا ہے لیکن مجھے اس بات پر شک ہے کہ اسرائیل مخلص ہے۔ اسرائیل صرف دنیا کی ہمدردی لینا چاہتا ہے۔ وہ کسی بہانے سے اپنی یہ آفر واپس لے لے گا اور پھر فلسطینیوں کو ظلم کا نشانہ بنانا شروع کر دے گا۔

عمر عثمانی، سعودی عرب:
امریکہ ’دہشتگردی‘ کے اسباب ختم کرنا چاہ رہا ہے اور یہ ایک اچھا شگون ہے۔ اس کے بعد وہ کشمیر کے مسئلے کی طرف آئے گا۔ معلوم نہیں اس کے پیچھے کوئی خفیہ منصوبہ بھی ہے لیکن فی الوقت تو اسے ایک اچھا قدم ہی سمجھنا چاہیے۔

مفتی عنایت اللہ انور، کینیڈا:
ساری دنیا میں فساد کی اصل بنیاد اسرائیل ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے گا۔

عاصم زبیدی، پاکستان:
اسلام کی تعلیمات کے لحاظ سے ہمیں مکمل خلوص کا مظاہرہ کرنا چاہیے، چاہے دوسرا فریق نہ کرے۔ ہمیں مثبت ذہن سے سوچنا چاہیے۔

نور احمد، ناروے:
میرا خیال ہے یہ منصوبہ امن سے مکمل ہو جائےگا۔ بحیثیت مجموعی یہ ایک اچھا قدم ہے۔مشرق وسطٰی میں دیرپا امن اسی وقت ہوگا جب اسرائیل تمام مقبوضہ علاقے خالی کر دے گا۔

علی عمران شاہین، پاکستان:
مسلمانوں کو یہودیوں سے کبھی اچھی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

امین اللہ، پاکستان:
یہ یہودیوں کی ایک عیارانہ چال ہے جس کا صرف اہل دانش ہی ادراک کر سکتے ہیں۔ یہودی مسلمانوں کا یہ حق خود اپنے ہاتھ اور بڑی آسانی سے دے دیں، کبھی نہیں ہو سکتا۔

طاہر چوہدری، جاپان:
یہ سب ڈرامے ہیں بش اور ان کے حواریوں کے۔ بش، ٹونی بلئیر اور شیرون نے اس دنیا کو جنگل بنا دیا ہے۔

ریاض فاروقی، یواے ای:
عالمی امن کے لیے ضروری ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہوجائے۔

کریم خان، کینیڈا:
ہمیں مثبت سوچ سے اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔ تنگ نظری چھوڑ کر امن و امان کی بات کرنی چاہیے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں۔

قمر عباس، پاکستان:
مسلمانوں کی یہ بھول ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ان کے خیر خواہ ہوں اور ان کے مسائل کا حل سوچیں گے۔ یہ ان کی کوئی مکاری ہے جس کا پول بہت جلد کھل جائے گا۔

عالمگیر بیگ، سویڈن:
میں یہودی قوم کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ ان کے بارے میں کچھ سوچوں یا بات کروں۔

مظہر احمد خان، پاکستان:
یہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے۔ مسلمان اور یہودی دونوں طرف کے رہنماؤں کو چاہیے کہ اس کا کوئی مستقل تصفیہ کرلیں اورمل بیٹھ کر فلسطین میں امن وامان قائم کریں۔

بلال جمال، فیصل آباد، پاکستان:
اگر یہ مثبت ہے تو بلکل ٹھیک ہے اور اگر منفی ہے تو سراسر غلط ہے۔

سلمان علی، پاکستان:
یہودی کبھی بھی مسلمانوں کو سکون کا سانس نہیں لینے دیں گے۔

نعمان ناصر، امریکہ:
اس سر زمین پر انیس سوسڑسٹھ میں قبضہ کیا گیا تھا اور اب اسے دوبارہ اس کے حقداروں کو واپس کیا جارہا ہے۔ تو یہودیوں کااحتجاج کیا معنی رکھتا ہے؟

جاوید اقبال ملک، پاکستان:
ساری دنیا میں جہاں بھی امن کے لیے کوششیں ہورہی ہیں وہاں پر اس طرح کے منفی ہھکنڈے بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ یاسر عرفات اصل فساد کی جڑ تھے اب وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں لہذا مسائل حل ہو جائیں گے۔

محمد کلیم، پاکستان:
یہ ایک اچھا منصوبہ ہے اور امید ہے کہ کامیاب ہوجائےگا۔

فیاض خان، پاکستان:
یہ فلسطین میں امن کی طرف ایک نہایت اچھا قدم ہے بشرطیکہ اس پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے۔ اگر یہ بھی کوئی سیاسی فیصلہ ہے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

جمال جمی، چنیوٹ، پاکستان:
یہ منصوبہ کبھی بھی پرامن طریقے سے حل نہیں ہوسکے گا کیونکہ یہودی آباد کار کبھی بھی مسلمانوں کو سکون سے نہیں رہنے دیتے تھے۔ یہ جاتے جاتے بھی مسلمانوں کو تنگ کریں گے۔

ابو ارسلان، اسلام آباد:
یہ سب دھوکہ ہے اسرائیل سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے اوردنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

 
 
66آپ کی رائے
ترک وطن -- آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
 
 
66آپ کی رائے
شرح ترقی، مہنگائی اور آپ کی زندگی
 
 
66آپ کی رائے
کیا فورسڈ لیبر یا بیگار کوختم کیا جا سکتا ہے؟
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد