BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
آپ کی آواز
وقتِ اشاعت: Tuesday, 07 June, 2005, 14:06 GMT 19:06 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
ایل کے اڈوانی کا بیان اور استعفیٰ
 
لال کرشن اڈوانی وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملاقات کرتے ہوئے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما ایل کے اڈوانی نے پاکستان دورے پر اپنے بیان سے پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد پارٹی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پاکستان دورے پر انہوں نے جو بیانات دیے اس پر ہندوستان میں سخت گیر ہندو جماعتوں نے کافی ہنگامہ مچایا ہے۔ ایل کے اڈوانی نے کراچی میں محمد علی جناح کے مزار پر مہمانوں کی کتاب میں حسب ذیل بیان رقم کیے تھے:

’’کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ پر نہ مٹنے والی مہر لگاجاتے ہیں لیکن چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو درحقیقت تاریخ رقم کرتے ہیں۔ قاعد اعظم محمد علی جناح ایسے ہی ایک انوٹھے شخص تھے۔ شروع کے اپنے سالوں میں، سروجنی نائیڈو نے، جو کہ انڈیا کی جد و جہد آزادی میں اہم شخصیت تھیں، مسٹر جناح کو ’ہند و مسلم اتحاد کا سفیر‘ قرار دیا تھا۔ گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے ان کا خطاب ایک ایسی سیکولر ریاست کا کلاسیکی اور بھر پور تصور تھا جس میں ہر شہری اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لئے آزاد ہوگا لیکن ریاست مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان تفریق نہیں کرے گی۔ اس عظیم شخص کو میرا مؤدبانہ خراج عقیدت۔‘‘

اڈوانی کے استعفیٰ سے متعلق جو خبریں اور بیانات آپ نے پڑھی ہیں، ان پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟

آپ کی رائے

اب یہ فورم بند ہوچکا ہے۔ قارئین کی آراء نیچے درج ہیں۔


جاوید شیخ جھانسوی، متحدہ عرب امارات:
بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جس کی کمان آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے ہاتھ میں ہے، اور وہ لوگ آج تک گوڈسے کو ہی صحیح مانتے ہیں۔ اور جو لوگ گاندھی کے ہتیارے کو صحیح مانیں، انسے جناح صاحب کے لیے کوئی توقع رکھنا بالکل غلط ہوگا۔ آج جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اڈوانی یا بی جے پی بدل گئے۔۔

صادق جوہر، گِلگِت، پاکستان:
دنیا چاہے جو کہے، انڈیا پاکستان کو اب پرانی دشمنی ختم کرنی چاہیئے اور جہاں تک اڈوانی کی بات ہے انہوں نے جو کہا وہ صحیح کہا ہے۔۔باقی اوپر والا بہتر جانتا ہے کہ ان کہ من میں کیا ہے۔

علی عمران، لاہور، پاکستان:
یہ سارا ٹوپی ڈرامہ ہے۔۔۔

محمد فرحان اسلم متھانی، موزمبیک:
محمد علی جناح کے بارے میں اڈوانی کی رائے درست ہے۔

فیض احمد، پاکستان:
میرے خیال میں یہ صرف ایکٹنگ تھی، اور اڈوانی شاہ رخ حان سے بھی بڑے ایکٹر ہیں۔

ظفر پٹھان، پاکستان:
یہ سب صرف سیاست کے لیے ہو رہا ہے۔ جس انسان کی وجہ سے بابری مسجد میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے، آج وہ یہ سب کیوں کہہ رہے ہیں؟

شفیع لوہار، پاکستان:
ایل کے اڈوانی کے یہ سارے بیانات انڈیا کے مسلم ووٹ حاصل کرنے کی بی جے پی کی شازش ہے۔

عبداللہ عمر، پاکستان:
اڈوانی نے اپنے بیان میں بے شک قائد اعظم کی تعریف کی ہے مگر بات تو توڑ مروڑ کر وہی اکھنڈ بھارت ہی کی رٹ لگائی ہے۔

ثنا خان، پاکستان:
اڈوانی ایک نہایت چالاک انسان ہے اور یہ سب ان کا اپنا ڈرامہ ہے۔ انڈیا میں ہندؤں سے ووٹ لینے کے لیے ہمیشہ پاکستان کو برا کہا اور جناح کو بھی اور اب پاکستان میں آکر انتہائی شریف اور معصوم بن رہے ہیں۔ اب انڈیا کے مسلمانوں کے ووٹ کے لیے ڈرامہ بنا رہے ہیں۔

عبدالسلام، پاکستان:
چانکیا کا دوسرا روپ۔

اظفر خان، کینیڈا:
ہندو انتہا پسند یہ بھول رہے ہیں کہ ایک ہفتے کے اس سفر میں اڈوانی نے ہندؤں کے دو مندروں کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ کیا کسی آر ایس ایس والے کی مجال ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی کام کروا سکے ہیں؟ تو بھائی پیار محبت سے بڑے بڑے کام ہوتے ہیں، تشدد سے نہیں۔ اور ہاں ہمارے قائد کو بیچ میں نہ لاو تو اچھا ہے۔

عمران احمد اعظمی، دلی، انڈیا:
ایسا لگ رہا ہے کہ اڈوانی نے یہ حقیقت تسلیم کر لی ہے کہ نفرت کی بولی بول کر اور اشتعال انگیزی کے ذریعے کوئی تحریک تو چلائی جا سکتی ہے لیکن کوئی حکومت اور ملک نہیں ۔۔۔

جاوید کریم خان، متحدہ عرب امارات:
اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ آزادی کے اٹھاون سال بعد بھی کچھ انڈین پاکستان کو ایک الگ ملک تسلیم نہیں کرتے۔ جو لوگ اڈوانی کے خلاف بول رہے ہیں وہ در اصل اب بھی ’اکھنڈ بھارت‘ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ مگر یہ تو کہنا ہی پڑے گا کہ اڈوانی ایک بہادر آدمی نکلا۔

عثمان کراچی والے، پاکستان:
صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ اڈوانی نے تلخ حقیقت کو قبول کیا اور اظہار کیا جبکہ گجرات کا مسئلہ انڈیا کے سیکولر عظم کو ظاہر کرتا ہے۔

گل انقلابی، سندھ:
جناح بھلے ہی انڈیا کو تقسیم کرانے میں کامیاب ہو گئے ہوں، مگر وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو تقسیم نہیں کر پائیں گے۔ اڈوانی ایک چالاک سیاسیت دان ہیں۔ وہ جناح کو استعمال کرکے اپنی ساکھ بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ انڈیا کے وزیر اعظم بن سکیں۔ یہ استعفی اسی مقصد کو پورا کرنے کا طریقہ ہے۔

عمیر خالد، لاہور، پاکستان:
ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے رہنما خود کو قومی سطح پر قبول کروانے کے لیے دلی میں ایک نیا ڈرامہ کرنے والے ہیں۔ ہم ایک ایسے شخص پر کیسے بھروسہ کر سکتےہیں جس نے بابری مسجد کو گرانے میں اتنا بڑا کردار ادا کیا تھا۔

عرفان فانی، پاکستان:
مسٹر اڈوانی کی یہ بات تو صحیح ہے کہ قائد اعظم ہندو مسلم اتحاد چاہتے تھے، مگر ان کی یہ بات غلط ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سکیولر ملک بنانا چاہتے تھے، کیونکہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ملک بنانا چاہتے تھے۔

محمد اسلم خان، آسٹریلیا:
میں کیا کہوں۔ اڈوانی نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح ہے۔ انڈیا کو اب یہ بات قبول کر لینی چاہیئے۔

خالد ملک، چکوال، پاکستان:
مسٹر اڈوانی کے فیصلے سے میں متفق ہوں کیوں کہ ان کا فیصلہ ضمیر کا ہے اور آج میں ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

سروان دھاندہ، کینیڈا:
لال کرشن اڈوانی کے دورہ پاکستان اور جناح کے بارے میں بیانات کی میں داد دیتا ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے لوگ سچائی کو قبول کرنا شروع کر دیں۔

عمران، سندھ، پاکستان:
اڈوانی ایسے پہلے بھی تین مرتبہ استعفی دے چکے ہیں۔ یہ سارا ڈرامہ ہے۔

عثمان ضیا، برطانیہ:
میرا خیال ہے کہ اڈوانی کے بیانات معتدل اور دوستانہ ہیں۔ یہ ایسے نہیں کہ جن پر ہنگامہ کھڑآ کیا جائے۔

ایم امجد شاہ زاد راجپوت، ڈیرہ غازی خان، پاکستان:
میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان دوستی چاہتا ہوں۔ مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ انڈیا میں لوگوں نے ایل کے اڈوانی کے بیانات پر ہنگامہ کھڑآ کر دیا ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس وجہ سے اڈوانی کو استعفی دینا پڑے گا۔ اڈوانی نے جناح کے بارے میں جو کچھ کہا وہ سچ تھا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر اڈوانی پاکستان آکر اپنی سیاسی جماعت بنانا چاہیں تو ہم ان کا کھلے دل سے استقبال کریں گے۔ انڈیا کے سکیولر لوگوں کو چاہیئے کہ وہ اس وقت اڈوانی کی پوری حمایت کریں اور انتہا پسندوں کو شکست دیں۔

جاوید اقبال ملک، چکوال، پاکستان:
میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر اڈوانی نے ایسی کوئی انہونی بات نہیں کی۔ قائد اعظم کی ساری دنیا قدر کرتی ہے۔ اور جہاں تک ہندو انتہا پسند جماعت کا تعلق ہے وہ تو ہمیشہ ہی تنگ نظر ثابت ہوئی ہے۔

نامعلوم:
میرا نہیں خیال کہ اڈوانی صاحب نے صرف قائد اعظم کے بارے میں بیان دینے پر استعفی دیا ہوگا۔ ان کا استعفی ان کی اپنی پارٹی میں اختلافات کی وجہ سے ہے۔

حمید نقوی، راولپنڈی، پاکستان:
اڈوانی نے قائد اعظم کے بارے میں جو کچھ بھی کہا وہ سچ ہے۔ کوئی کب تک سچ کو جھٹلا سکتا ہے۔ جہاں تک اڈوانی صاحب کے استعفی کا سوال ہے تو میرے خیال میں اس سے ان لوگوں کی ذہنیت پتا چلتی ہے۔ بیسٹ آف لک مسٹر اڈوانی!

محمد عبیر خان، چترال، پاکستان:
بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے۔

محمد سید شیخ، بحرین:
اصل میں اسلام کی حقیقی روح یہی ہے جس کو آج کل سیکولرزم کہا جاتا ہے۔ مگر آج کل اسلام کو دہشت گردی سے منسلک کر کے اس کا چہرا مسخ کیا جا رہا ہے۔ یہ اڈوانی کی ایک اور چال ہے۔ انڈیا میں بابری مسجد کی شہادت کو یوم آزادی کہنے والے پاکستان میں آکر اسی دن کو تاریک ترین کہتے ہیں۔ یہ سب ڈرامہ ہے۔

انور شاہ، پاکستان:
میرے خیال میں ایل کے اڈوانی کے جناح کے بارے میں بیانات بالکل درست ہیں۔ جناح پاکستان میں ہر مذہب کے افراد کے رہنما تھے۔ انڈین جماعتوں کو چاہیئے کہ اس حقیقت کو مان لیں جس کا اعتراف اڈوانی نے اپنے دورہ پاکستان میں کیا۔

سید ضرغام الدین، دبئی:
یہ بھی سیاست کی ایک چال ہے۔ آج کی تاریخ میں پاکستان اور انڈیا دوست بن رہے ہیں اور یہ ان قوم پرستوں کو بالکل اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اس لیے اڈوانی نے قائد اعظم کی تعریف کی تاکہ لوگ اسی بہانے قاعد اعظم کی شان میں کچھ غلط الفاظ استعمال کریں اور یہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی ایک مرتبہ پھر دشمنی کی طرف بڑھنے لگے۔ ایسا کرنے سے اڈوانی جی کی امیج بھی کلئر رہے گی اور ان کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا۔

خلیل خان، سعودی عرب:
بقول شاعر ’بڑی دیر کردی مہربان آتے آتے‘ یا پھر ’دیر آئے درست آئے‘۔ اور انڈیا دوستی کا دعوی بھی کرتا ہے اور اس طرح کے ہنگامے بھی کرتا ہے۔

پرویز اختر، عمان
اڈوانی ایک بڑے رہنما ہیں۔ اگر آپ بابری مسجد کی بات کرتے ہیں تو میرا ایک سوال ہے کہ کیا ہمارے مسلمانوں نے بھی مندر نہیں تباہ کیے؟ دوسرا یہ کہ مسلمان ہونے کے تحت میرا ایمان ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے اور کہیں بھی نماز پڑھنے کے لیے تعمیر کی جا سکتی ہے۔ جو کچھ اڈوانی جی نے قاعد کے بارے میں کہا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔

حسین، انڈیا:
اڈوانی جناح کے بارے میں دل سے بات کر رہے تھے۔ ان کا یہ بیان نہایت ہی بولڈ ہے۔

عطیق صدیقی، پاکستان:
پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن اسی صورت میں مکن ہے اگر ہندو انتہا پسند پاکستان کے بارے میں حقیقت کو قبول کر لیں۔ اڈوانی نے اس لحاظ سے بہت اچھا کیا۔

فریداللہ، پاکستان:
اللہ بخشے ایل کے اڈوانی، آپ بھی گزر گئے۔

سید مسعود، مردان، پاکستان:
اڈوانی صاحب نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ان بڑے رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرتے ہیں۔ ایک دن ان کی پارٹی پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں ان کے خیالات کو مان جائے گی۔ اڈوانی جی پاکستان کے ساتھ ایک اچھے دوست اور ایک اچھے ہمسایہ کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔

انجم بشیر، پاکستان:
مجھے لگتا ہے کہ اڈوانی صاحب نے بالکل صحیح کہا ہے۔ مگر میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ انڈین سیاسی جماعتوں نے اس غیر حقیقی رد عمل کا اظہار کیوں کیا۔

نامعلوم:
اڈوانی اب مجھے ایک معصوم شخص نظر آنے لگے ہیں۔۔۔

سید مسعود، مردان، پاکستان:
میرے خیال میں اڈوانی کے خیالات درست ہیں، لیکن اڈوانی خود ایک انتہا پسند رہنما رہ چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اڈوانی نے یہ سب کچھ انڈین اقلیت میں خود کو مقبول کرنے کے لیے کہا ہو۔ لیکن دیر آئے درست آئے۔

سید قادر، کینیڈا:
اس سب سے پتا چلتا ہے کہ اڈوانی ایک سچے سندھی ہیں۔ اگر کوئی پنجابی ہوتا تو نہ تو استعفی دیتا اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا کہ اس کے بیان کو توڑا مروڑا گیا ہے۔

عطا محمد عقیل، امریکہ:
سب ڈرامہ ہے۔ آئندہ آنے والے انتخابات تک کچھ مسلم ووٹ بنانے کی ترکیب ہے۔۔

عبدالسمد، ناروے:
آخر کار عمر کے اس حصے میں اڈوانی صاحب نے ہِندُتوا کے فلسفے کو رد کر ہی دیا۔ ’بہارو پھول ربساؤ، میرا اڈوانی محبوب آیا ہے‘۔ سچی توبہ پر اللہ بھی معاف کر دیتا ہے۔

تیمور ارشد، پاکستان:
مجھے لگتا ہے کہ اڈوانی پاکستان ایک بدلے ہوئے ذہن کے ساتھ آیا۔ اس نے پہلے سوچ رکھا تھا کہ وہ بھارت ایک نئے روپ میں لوٹے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ وہ مسلمانوں کا حامی ہے۔ مگر اس نتیجہ وہ نہیں نکلا جو اس نے سوچا تھا۔

ریاض فاروقی، دبئی:
ہم سب کو بڑے مقصد کے لیے کام کرنا چاہئیے نہ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنا ٹائم ضائع کریں اور بڑا مقصد ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جو تلخیاں ہیں پچھلے ساٹھ سالوں کی، ان کو ختم کرنا۔ وہ اسی طرح ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کے عقیدے اور خیالات کا احترام کریں، ایک دوسرے کی فیلنگز کو ہرٹ نہ کریں۔۔۔

سلیم محمد ظفر، دلی، انڈیا:
لال کرشن اڈوانی کو اہمسہ مہنگی پڑی۔ میری رائے میں اڈوانی صاحب نے پہلی بار زندگی میں کوئی بہتر فیصلہ کیا ہے۔ کیوں کہ انسان پھر بھی انسان ہی ہوتا ہے، چاہے وہ ایک کٹر مذہبی پرست یا قوم پرست ہی کیوں نہ ہو۔ یہ درست ہے کہ وہ خود ایک کٹر ہندو پرست جماعت کے رکن کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ انہیں خود بھی پتا چلا کہ ان کے لیے یہ کتنا مہنگا ثابت ہوا ہے۔۔۔اڈوانی صاحب کو مشورہ ہے کہ بس اگر اب صحیح راہ کا انتخاب کر لیا ہے تو اس پر قائم رہیں، چاہیں جو بھی ہو، اور اپنے بیان کو کسی بھی صورت میں واپس نہ لیں۔۔۔

محمد عمران عاصف، گریس:
یہ جو ہم دوستی اور ’اوپن مائنڈس اینڈ ہارٹس‘ کی باتیں سنتے رہتے تھے اور امن کے سنہری خواب دیکھ رہے تھے، ہندو ذہنیت نے کھول کر بتایا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ان کے دل میں کتنی نفرت ہے۔

قمر جاوید، پاکستان:
اس سے کچھ ہندؤں کی انتہا پسندی ثابت ہو گئی ہے حالانکہ یہ مسلمز کو انتہا پسند کہتے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بابری مسجد صرف سیاست کا شکار ہوئی۔

 
 
66اڈوانی: دورۂ پاکستان
’یہ میری زندگی کا ناقابلِ فراموش ہفتہ تھا‘
 
 
66سندھو کے درشن
اڈوانی خاندان ماضی کی گلیوں میں خوش
 
 
اسی بارے میں
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد