Thursday, 10 February, 2005, 15:21 GMT 20:21 PST
پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے جدہ میں ملاقات کی ہے۔ دس فروری کی یہ ملاقات پاکستانی سیاست کے لئے اہم سمجھی جارہی ہے۔ بینظیر بھٹو نے جدہ میں نواز شریف سے ملاقات کرکے ان کے والد کی وفات پر تعزیت کی اور دونوں رہنماؤں نے دوپہر کا کھانا اکٹھے کھایا۔ شاید ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب دونوں کھانے پر اکٹھے ہوئے ہوں۔
دونوں سابق وزرائےاعظم دو دو بار پاکستان کے وزیراعظم رہے لیکن کبھی اپنی پانچ سالہ مقرر کردہ مدت مکمل نہیں کرسکے۔ دونوں رہنما اس وقت جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان حکومتوں سے باہر رہنے کے بعد ان کی پہلی ملاقات تھی۔ بینظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور میاں نوازشریف کی پاکستان مسلم لیگ دونوں ’اتحاد برائے بحالی جمہوریت‘ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہیں اور حزب مخالف کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
آپ کی نظر میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کا پاکستانی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟
محمد اکرم، لاہور:
یہ اچھا ہے۔ کاش یہ بہت پہلے کرلیتے۔ امید ہے کہ دونوں ملک میں جمہوری عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ مگر عوام میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ان کو کرپشن پر معافی مانگنا ہوگی۔ اور کرپٹ سیسٹم ٹھیک کرنا ہوگا۔
نوید اقبال، جدہ:
میرے خیال میں جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے پاکستان کے لئے کوئی بہتری ہوگی تو یہ ایک دیوانے کے خواب سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ان دونوں نے پاکستان میں رہ کر ایک دوسرے سے ملنے سے گریز کیا اور ایک دوسرے پر بڑے رقیق الزامات لگائے۔ اب بھی صرف ان کے اپنے مفادات ہی پیش نظر ہیں۔۔۔
شمیم محمد، امریکہ:
یہ دونوں ہی رہنما ’لوزر‘ ہیں، دونوں نے پاکستان میں کرپٹ نظام کو برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ ملا لیا ہے۔۔۔۔
طحیٰ کرامت، پاکستان:
مجھے لگتا کہ پاکستان کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت تاکہ مشرف کی ڈِکٹیٹرشِپ کے خلاف کھڑا ہوسکیں، ایم ایم اے کے اقدامات اس معاملے میں کافی نہیں ہیں۔ پچاس فیصد سے زائد لوگ ابھی بھی نواز شریف اور بینظیر سے پیار کرتے ہیں، لہذا دونوں رہنما حکومت کو ہلاسکتے ہیں۔
فاتح عالم، فرانس:
نواز شریف کو ’ابا جی‘ کے بعد کسی سہارے کی ضرورت تھی۔ چلو بی بی نے اپنا دستِ شفقت رکھ دیا۔
ناصر بلوچ، مظفر گڑھ:
مجھے یقین نہیں آتا کہ دونوں رہنما ملے ہیں، انہوں نے ایک دوسرے کا سامنا کیسے کیا ہوگا؟ انہیں شرم نہیں آئی ہوگی؟
زین علی، کراچی:
میرے خیال میں یہ ایک اچھا قدم ہے، صحیح جمہوریت کی طرف۔ دونوں سیاست دانوں کو برداشت اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور دونوں پارٹیز میں سے کرپٹ اور برے کیریکٹر لوگوں کو نکالیں چاہئے۔۔۔۔۔
نوید صدیقی، لودھراں:
عقل کا ہے نہ جذبات کا میل ہے ۔۔۔دوستو! یہ مفادات کا میل ہے،۔۔۔ اس طرف بھی غلط، اس طرف کی غلط۔
عزیز قادری، زامبیا:
بینظیر اور نواز شریف دونوں پاکستان کے حقیق رہنما ہیں اور انہیں پاکستان سے باہر رکھ کر حقیقت جمہوریت ملک میں نہیں آئے گی۔ موجودہ فراڈ کا نظام ناکام ہوگیا ہے اور پاکستان کے عوام کو کافی نقصان پہنچا ہے۔
ندیم فاروقی، لاہور:
اس ملاقات سے پاکستان کی سیاست پر مثبت اثرات پڑیں گے اور امید ہے کہ اس سے ملکی سیاست ایک نیا موڑ لے گی اگر ان دونوں کا اتحاد برقرار رہتا ہے تو اگلے منصفانہ انتخابات میں یہ بھاری اکثریت حاصل کرلیں گے۔
رضوان شاد، نیویارک:
یہ اچھی شروعات ہے، اس سے پاکستان میں جمہوریت کو تقویت پہنچے گی۔
سردار ذوالفقار، کنجو سوات:
مجھے نہیں لگتا کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے مشرف حکومت کے لئے کوئی پریشانی ہوگی، کیوں کہ ان لوگوں کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے پاکستان کے عوام کی بےروزگاری اور غربت کے خاتمے کے لئے۔ موجودہ حالات میں مشرف اگلے پانچ سال تک آرام سے حکومت کرتے رہیں گے۔
محمد، کوئٹہ:
پاکستانی حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور میرے خیال میں پاکستان سیاست ایک پرخطر دور میں داخل ہوگئی ہے، کیا پاکستان مستحکم رہ پائے گا؟
شوکت حسین، شارجہ:
دونوں رہنماؤں کی ملاقات خوش آئند ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ سیاسی جماعتیں متحد ہوکر پاکستان کی حفاظت کریں۔ اور محسن پاکستان کو امریکن ایجنٹوں سے رہائی ملے۔ پاکستان کے فوجی جنرل بش کے خدمات گار، شرم آنی چاہئے ہمارے حکمرانوں کو۔۔۔۔
صفدر ملک، امریکہ:
دو ڈاکو ملنے کی کوشش کرہے ہیں تاکہ ملک کو پھر سے لوٹ سکیں۔۔۔۔
مجتبی حسین، پاکستان:
اللہ رحم کرے پاکستان کے حال پر۔ ان کی شکلوں سے کیا لگتا ہے کہ کوئی در ہے ان کے اندر وطن کے لئے، ان کو تو اتنے جوتے پڑنے چاہئے کہ بعد میں آنے والے پاکستان سے برا کرنے کا سوچے بھی نہیں۔۔۔۔
عمار بھٹا، الینوائے:
یہ ملاقات پاکستان کے مستقبل کے لئے بہت ضروری تھی۔ مشرف حکومت جس طرح سے ملک کو برباد کررہی ہے اس کے لئے یہ ملاقات اور انشاء اللہ اس سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال عوام اور جمہوریت کے لئے خوش آئند تبدیلی لائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم ایک آئین کو قبول نہیں کرتے تب تک یہ جد و جہد جاری رہے گی۔
محمد خان، ٹورانٹو:
دونوں کرپٹ رہنما، ان کے اندر کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔۔۔
بہاد بلوچ، خضدار:
نواز اور بینظیر، ایک پنجابی شاؤنسٹ اور دوسرا لیبرل سندھی۔ کیا بلوچوں اور پشتونوں کے لئے بھی کچھ ہے؟ یہ دو قومیں ہیں جنہیں پاکستان کی فوج ہلاک کررہی ہے لیکن یہ دونوں رہنما اپنے مقاصد کے لئے سیاست کررہے ہیں۔۔۔۔
زیاد احمد، کراچی:
اب وہ دن دور نہیں کہ سردار پرویز مشرف جلاوطن کی زندگی گزاریں گے۔
سمیر احمد، ٹورانٹو:
پاکستان کی مائکرو ایکونامی ابھی اچھی ہے۔ فارن سروس میں بھی پیسہ پڑا ہے۔ اس خزانے کو خالی کرنے کے لئے دونوں سرجوڑ کر بیٹھ گیے ہیں۔ اور یہ زردار مشرف کا کوئی پیغام نواز کو دینے گئے ہیں۔ سب ہاتھ کی صفائی ہے۔
امتیاز احمد، رومانیہ:
میرے خیال میں بھٹو یا شریف کسی کو بھی پاکستان کی بھلائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کو اپنی جھولی ڈالروں سے بھرنے میں دلچسپی ہے۔ انہیں کتنا پیسہ چاہئے؟ اگر وہ صحیح میں عوام کی بھلائی میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہوں نے بحیثیت وزیراعظم ملک کے لئے کیا کیا؟
فاروق سید، نیویارک:
پاکستانی عوام دونوں فیک لیڈرز کو بھول چکے ہیں اور ان کی میٹنگ اور پلان میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
مصدق اسد، مانٹریال:
میرے خیال میں یہ اچھا اقدام ہے۔
فیصل خان، کینیڈا:
یہ دونوں ملک کے غدار لیڈر ہیں۔ ان لوگوں کو صرف اپنی کرسی پیاری ہے۔ پاکستان میں جن کے پاس پیسہ ہے ان کے پاس اور آرہا ہے اور جو بےچارے غریب ہیں وہ اور غریب ہو رہے ہیں۔۔۔۔
طارق محمود، سرگودھا:
کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ ان دونوں کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ ملک سے باہر رہ کر کیا کرسکتے ہیں سوائے ماضی کی تلخ یادوں کو یاد کرنے کے۔۔۔۔
سارہ خان، پشاور:
آپ نے بھی پاکستان لوٹا، میں نے بھی پاکستان لوٹا۔ اب چلو مل کر لوٹتے ہیں۔ جب ہم دونوں کی پالیسی ایک ہے تو دوری کس بات کی۔ پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔
محمد نظامی، ہیوسٹن:
دونوں رہنما اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کو ٹیسٹ نہیں کرنا چاہیے جن کی بیوقوفی ثابت ہوچکی ہے۔ ہمارا ملک جاہل ہے۔ انہیں معلوم نہیں کیا اچھا ہے کیا برا ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی کہ انہیں ملک واپس آنے دیا جائے۔
ساجد خان، گجرانوالہ:
میرے خیال میں یہ ملاقات کوئی بڑا اپسیٹ نہیں ہے۔ لوگ اس وقت بڑے مسائل میں اپنا گزارا کررہے ہیں جس کی وجہ سے مشرف کا بھی کام چل رہا ہے۔ عوام کو اپنی روٹی کی پڑی ہوئی ہے، وہ کیا جانیں نواز شریف اور بینظیر یا مشرف۔۔۔۔
ندیم ضیاء، امریکہ:
ان دونوں کی ملاقات سے صرف وہی لوگ خوش ہوسکتے ہیں جن کو ان دونوں کے آنے سے فائدہ ہو۔ اگر اللہ نے کرے مجھے ملک سے نکالا جائے۔ یہ کہہ کر کہ تم غدار ہو یہ بڑے پیمانے پر فراڈ میں ہو تو میں کبھی بھی اس ملک میں واپس نہ جاؤں۔۔۔۔۔
نعیم مصطفیٰ گِل، سیالکوٹ:
نواز اور بینظیر کی یہ ملاقات جمہوریت کے لئے اچھی شگن ہے کیوں کہ ان کی دونوں جماعتیں پاکستان میں ایک لیمیٹیڈ ڈیموکریسی لیکر آئی تھیں۔
محمد وسیم خان تنولی، کراچی:
میں دونوں رہنماؤں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جمہوریت کے بارے میں لوگوں میں آگہی پھیلائیں، یہی عوام کے مسائل کا واحد حل ہے لیکن وقت لگے گا۔ لیکن دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے، ہمیں خوشی ہے کہ آپ ہماری رہنمائی کررہے ہیں، ہم انہیں پاکستان واپس دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
حمید احمد، فرینکفرٹ:
پاکستان کے تمام سیاسی اور ملٹری لیڈر کرپٹ ہیں لیکن پاکستان کے عوام بھی کوئی معصوم نہیں ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو برداشت کیوں کرتے ہیں؟ دونوں سابق وزرائے اعظم کی ملاقات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔
مقبول چنا، مانچسٹر:
آپ کو یقین کرلینا چاہئے کہ فوج سے ملک تین اور تین سال حکومت کرلیتے ہیں کیوں کہ دونوں سربراہوں نے پہلے آمنے سامنے تسلیم کیا کہ فوج کے بغیر حکومت نہیں ۔۔۔۔۔
لالہ ارشاد خان، لندن:
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان دونوں کو مرتے دم تک پاکستان میں نہ آنے دیا جائے۔ اگر ان دونوں کی تاریخ دیکھیں تو پرائم منسٹر ہاؤس کو ۔۔۔۔بنایا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر ایم ایوب، ویانا:
گزشتہ پچاس سالوں سے آرمی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ جب تک یہ دونوں مضبوط ہیں پاکستانی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ہم پاکستان میں ایک مضبوط سیاسی نظام کی خواہش کرتے ہیں اور ہم اس کے لئے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔
سید رضوی، شیکاگو:
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ۔۔۔۔
احمد رضا، آسٹریلیا:
دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں کو پیسہ چاہئے خرچ کرنے کے لئے۔ جمہوریت ترقی کی جانب ایک دروازہ ہے اور تعلیم اس کی چابی۔ تعلیم کے بغیر ڈیموکریسی بےمعنی نظام ہے۔
ارشد خان، راولپنڈی:
پاکستان میں ڈِپلومیسی کے مستقبل کے لئے بہتر ہے۔ اگر دونوں ایک ایجنڈا پر کام کریں تو وہ حکومت کے ساتھ بہتر نیگوشیٹ کرسکتے ہیں۔
محمد فیصل، سرگودھا:
شاید کچھ بھی نہیں۔ دونوں یہ جانتے ہیں کہ اس وقت امریکہ مشرف کے لئے سیاسی مشکلات نہیں چاہتا اور دونوں امریکہ کے لئے مشکلات نہیں چاہتے۔
ایم فہیم، شالیمار پارک:
دونوں نے اپنی اپنی ڈِیل کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہے، کیوں کہ نواز شریف ڈیل کرکے باہر گئے، زرداری ڈیل لیکر، مشرف صاحب کے ہوتے ہوئے اب یہ لوگ شاید پاکستان نہ آسکیں۔
رانا محمد الیاس، پاکستان:
انہیں چاہئے کہ وہ صدر پاکستان کی حمایت کریں تاکہ ترقیاتی کام ہوسکیں۔
امان اللہ خان آغا، کراچی:
سیاست میں کوئی دوست، دوست نہیں، کوئی دشمن نہیں۔ دونوں ہی پاکستان سے باہر ہیں۔ ان کے دور میں بھی عوام بھوکی اور ننگی تھی اور اب بھی ہے، اور ہمیشہ رہے گی۔ کیوں کہ جب تک یہ عوام جاہل ہیں ان لوگوں کے مزے رہیں گے۔ ان دونوں کی ملاقات سے ان کو تو فائدہ ہے لیکن عوام کو اور پاکستان کو کچھ بھی نہیں۔۔۔۔
عزیز خان، امریکہ:
پاکستان میں جمہوریت کی شروعات نیچے سے ہونی چاہئے، جبکہ عوام تعلیم یافتہ نہیں ہوجاتے اس وقت تک سیاست دان اور جنرل ملک پر حکومت کریں گے، اور عوام نہیں۔
جاوید رانا، ماڈل ٹاؤن:
دونوں نواز اور بینظیر پاکستان کے جینیئس رہنما ہیں۔ لیکن دونوں کے درمیان معمولی فرق ہے۔ نواز شریف ایک پیٹریٹِک لیڈر ہیں جبکہ بینظیر پاکستان سے تبھی محبت کرتی ہیں جب وہ حکومت میں ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کی ملاقات پاکستان کے لئے اچھی نہیں ہے کیوں کہ دونوں کا مستقبل ختم ہوچکا ہے۔۔۔
صالح محمد، راولپنڈی:
میرا خیال ہے کہ یہ بہت اچھی بات کا ثبوت ہے کہ دس سال تک جیسی بھی حکومتیں تھیں، تھیں تو جمہوری، اور یہ ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام جمہوری نظام کی طرف، بڑھ رہے ہیں، یہ ملاقات جمہوری سوچ کی نشاندہی کرتی ہے۔
رخسار حسین، جہلم:
اب حزب اختلاف متحد ہوجائے گا اور حکومت پر زیادہ دباؤ ہوگا، تاکہ قومی مسائل کے بنیادی خرابیوں کا سامنا کیا جاسکے۔۔۔۔
محمد یامین، اونٹاریو:
جو یہ لوگ ملک کے وزیراعظم تھے تب جمہوریت اور اس کی حفاظ کا خیال کیوں نہیں آیا۔ جب بےآبرو ہوکر نکالے گئے ملک سے تب جمہوریت کا درد اٹھ رہا ہے۔ پاکستان میں ان کو ووٹ دینے والے پہلے بھی تھے، آج بھی ان کی تعداد کچھ کم نہیں ہوئی ہے۔ آخر پچپن سال سے تو یہی ہورہا ہے۔ پھر دونوں پاکستان تشریف لائیں گے، پھر وزیراعظم بن جائیں، لو پھر کھیل شروع۔۔۔۔
شاہدہ اکرم، ابوظہبی:
دونوں سیاست دان ہیں، سیاست کا وہی پرانا کھیل کھیل رہے ہیں۔ بہانہ ایک ایسی وجہ بنائی جارہی ہے جس کو کوئی منع بھی نہیں کرسکتا ہے۔ عمرہ پر جانا تو ایک سعادت ہے اور رہائی کے بعد شکرگزاری کے لئے جارہے ہیں، اور دوسری بات تعزیت کے لئے جانا بھی ایک مذہبی اور سماجی فریضہ ہے، ان سب وجوہات کو کون منع کرسکتا ہے؟ اور ہمارے سیاست دان، ہمارے ملک کے خیرخواہ دنیا کے ہررسم کو، ہر بات کو استعمال کرسکتے ہیں اپنے مطلب کے لئے۔۔۔۔
شاہ شفیق پرویز، اٹک:
اس ملاقات سے جمہوریت کو طاقت ملے گی، اپنے اپنے اقتدار میں دونوں نے عوام کو کچھ بھی نہ دیا اور اب بھی ہمیں دونوں سے کوئی امید نہیں ہے۔
خالد سندھی، خیرپور:
یہ ملاقات کچھ نہیں ہے، صرف ایک دن کی نیوز رپورٹ ہے۔ دونوں رہنما کبھی مخلوص نہیں رہے ہیں اپنے ملک کی جانب۔ لیکن ملک کی جانب وفادار کون ہے، آرمی؟ آرمی دونوں رہنماؤں سے بھی بدترین ہے۔۔۔۔
چودھری مشتاق، امریکہ:
دو ڈاکو پھر پاکستان پر ڈاکہ ڈالنے کی تیاری میں جٹ گئے۔
شاہد جاوید، امریکہ:
اتحاد برائے جمہوریت، کافی مضحکہ خیز بات ہے، یہ تو پاکستان کے عوام کو فی الحال نواز شریف یا بینظری سے دلچسپی نہیں ہے، ان کو دلچسپی ہے تو اس میں کہ مہنگائی کب ختم ہوگی اور امن کب ہوگا اور یہ دونوں کام ہر حکومت میں ہوتے ہیں بلکہ بہت زوروں سے ہوتے ہیں، بھلے جمہوری حکومت ہو یا فوجی۔ ان کی ملاقات سے سیاست پر فرق نہیں پڑنے والا، سوائے اس کے کہ ان کے کارکنوں کو کچھ دن تک اخباروں میں رہنے کا موقع مل جائے گا۔
احمد عمران، ابوظہبی:
مشرف ہوشیار بندہ ہے، سیاست کرنا جانتا ہے، اس کو پتہ ہے کچھ دن شور ہوگا پھر گرد بیٹھ جائے گی ۔۔۔ ان دونوں نے بھی اکٹھا نہ ہونے قسم کھائی تھی، اب بہن بھائی بن گئے ہیں، یہ بات عمران خان نے سیاست کے اولین بیانات میں کہی تھی۔۔۔
فلک شیر، ملہوالی:
یہ سب فراڈ ہے جو کہ عوام کو دھوکہ دیہی ہے، میں باضابطہ خود پی پی پی کا سپورٹر ہوں لیکن بینظیر صاحبہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
عامر، گلاسگو:
دونوں رہنماؤں کو دوبارہ سے پاک فوج۔۔۔۔۔ اور اپنے فرض اور قوم کی وفادار فوج بنانے کے لئے عزم کرنا چاہئے۔ ایسے اقدمات کرنے چاہئیں کہ پاکستان بھی دنیا میں ایک سیویلائزڈ کنٹری کہلا سکے، جہاں جمہوریت ہو، انصاف سب کے لئے یکساں ہو، اور ناپاک جنرلوں کی بھی اکاؤنٹیبلیٹی ہوسکے۔