|
کیا ساری زمین فوج کی ہے ؟ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فل بینچ نے بدھ کو آرمی ویلفئیر ٹرسٹ کو حکم دیا کہ وہ اسلام آباد کے دیہات میں اپنے قبضہ میں لی گئی تمام زمینوں کا مناسب معاوضہ اصل مالکان کو ادا کرے۔ شروع میں یہ تاثر دیا گیا کہ ان زمینوں کو دفاعی اور قومی مفاد میں قبضے میں لیا جارہا ہے تاہم بعد میں ایک نئے نوٹیفکیشن میں زمینوں کے حصول کا مقصد فوجی افسران کے لیے ہاؤسنگ کالونی کی تعمیر بتایا گیا۔ کہا گیا ہے کہ زمینوں کے حصول کے سلسلہ میں مبینہ طور پر بےقاعدگیاں کی گئیں اور ایک ایسے گاؤں کی تمام اراضی پر بھی قبضہ کرلیا گیا جو اس نوٹیفکیشن میں شامل نہیں تھا۔ پچھلے کچھ سالوں سے ملک بھر میں زرعی اور شہری زمینوں پر فوج اور عوام کے درمیان تنازعات بڑھ گئے ہیں اور ایک بڑی تعدادمیں ان زمینوں سے کسانوں کے بے دخل کیے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں وہ کئی نسلوں سے کاشت کاری کرتے آئے ہیں۔ اس سلسلے کے تازہ ترین واقعات اس سال پٹارو اور اوکاڑہ میں پیش آئے۔ اسی بارے میں: کیا دفاعی اور قومی مفادات کے تحت لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جا سکتا ہے؟ کیا عدامتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ درست ہے؟ کیا عدالت کو اس قسم کے دوسرے واقعات کی بھی تحقیقات کا حکم دینا چاہئے؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں
مبشر عزیز، ہیمبرگ: اگر آپ نے خبر پڑھی ہو کہ لاہور میں ایک ’ڈاکو گروپ‘ نے بھرتیوں کے اشتہار لگائے تھے جس میں تنخواہ کے ساتھ ساتھ مزید سہولیات کا وعدہ بھی تھا۔ پاکستان کی فوج بھی ایک ڈاکو گروہ ہے جس میں بھرتی ہونے والوں کو عوام کی جیب پر ڈاکہ مار کر بہت کچھ دیا جاتا ہے۔ یہ کام ڈاکو بھی ڈنڈے کے زور پر کرتے ہیں اور فوج بھی، فرق صرف لٹنے والوں کی تعداد کا ہے۔ ایم عرفان، ٹورانٹو: پاکستان کی افواج ڈاکوؤں اور کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ آفتاب، امریکہ: فوج میں بدعنوانیوں کا ذمہ دار کون ہے؟ صرف چند جنرل۔ ہماری عدلیہ کیا کر رہی ہے؟ وہ اس قدر بے بس کیوں ہے؟ مضبوط عدلیہ سے مراد طاقتور ملک ہوتا ہے۔ اگر ہہاری عدلیہ مضبوط ہو اور بدعنوان جرنیلوں کے خلاف کارروائی کرے تو تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔
چوہدری اہتشام: میں فوج کے اس اقدام کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ پاکستان کی زمین کسی کے باپ کی جاگیر نہیں کہ جو چاہا کرتے رہے۔ فوج سمیت تمام اداروں کو قانون کے مطابق چلنا ہو گا۔ لوگوں کے گھروں کے تحفظ کے بجائےگھروں کو لوٹنا ’دفاع وطن‘ نہیں بلکہ صریحاً ڈاکہ زنی اور غندہ گردی ہے۔ فوج کو عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے فوراً اس ناجائز حرکت سے کنارہ کشی کرنی چاہئے۔ چوہدری جمیل احمد خان، کمالیہ: پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے، سب جمع خرچ زبانی ہے۔ عدالتیں اور جج حضرات وہی فیصلے کرتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔صحافت کو آزادی حاصل نہیں جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ صداقت خان، بلیک برن: پاکستان کی تمام خارجہ پالیسی آئی ایس آئی ترتیب دیتی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد صرف فوج ہی فائدے میں رہی ہے چاہے ملک ٹوٹے یا ملک کو شکست ہو۔ زمینیں، دولت، ملازمتیں سب فوج کے مقدر میں آتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر سے بھی صرف فوج کو ہی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ فوج اس مسئلے کا حل نہیں چاہتی۔
محمد عثمان، سرگودھا: شیر شاہ سوری کے دور اقتدار کی پانچ سالہ تاریخ دیکھ لیں، اگر کوئی فوجی بلا اجازت کسی کھیت سے کوئی چیز توڑ لاتا تو اس وقت کے قانون کے تحت فوجی کے کان کاٹ کر اس کے گلے میں لٹکا دیے جاتے۔ اگر فوج خود ملک میں لوٹ مار کرے گی تو عوام میں نہ صرف بےچینی پھیلے گی بلکہ فوج کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ پاکستانی عوام بےوقوف نہیں، وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ فوج اور ڈاکوؤں میں کیا فرق ہے؟ آج ملک کے ہر اہم ادارے میں فوجی افسران حکومت کر رہے ہیں۔ دنیا کے ہر مہذب ملک نے تعلیم کے ذریعے ترقی کی ہے نہ کہ فوج کی بدولت۔ ہمارے تعلیمی اداروں پر بھی فوج مسلط ہے۔ ’وار سٹڈیز‘ میں ایم ایس سی ہارنے والے جرنیل کیا جانے کہ تعلیم کیا ہوتی ہے۔
نجیب خان، لاہور: پاکستان آرمی قانون سے بالاتر ہے۔ دراصل ہر ملک کے پاس ایک فوج ہوتی ہے لیکن ہماری فوج کے پاس حکومت کرنے کے لیے ایک ملک ہے۔ مختار راجہ، سپین: پاکستان کی فوج آمر ہے اور اپنے مفاد کے لیے جو چاہے کرتی ہے۔ اسے ملک کا مفاد عزیز نہیں ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ فوج ملک کے آئین کے مطابق اپنے فرائض انجام دے۔ سپریم کورٹ نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اظہار پاشا، سعودی عرب: ہماری افواج کو ’جائیداد کے کاروبار‘ سے علیحدہ ہو جانا چاہئے۔
عمر علوی، دبئی: سب کچھ ملک کے دفاع اور اس کی بہبود کے لیے کیا جاتا ہے اس لیے پاکستان فوج کو پورا حق ہے کہ وہ ملک کی بہتری کے لیے جو چاہے کرے۔ گُڈ لک جنرل۔ خلیل اخون، بہاول نگر: فوج یا حکومت عام لوگوں کی ملکیت کی زمین یا کوئی دوسری چیز نہیں لے سکتی، جب تک وہ اسے قیمت ادا کر کے یا ہدیہ کے طور پر نہ دے دیں۔ لیکن اگر حکومت کو دفاعی یا قومی ضرورت کے تحت ایسی زمین لینے کی ضرورت پڑے تو اسے اس کا معاوضہ دینا چاہئے یا پھر کوئی اور نعم البدل۔ صالح محمد، راولپنڈی: اصل مسئلہ یہ ہے کہ فوج کو آج تک کسی نے یہ سبق نہیں سکھایا کہ ان کا کام کیا ہے اور وہ کر کیا رہے ہیں۔ جتنی سہولیات فوج کو پاکستان میں حاصل ہیں اتنی کسی اور ملک میں نہیں۔ اگر یہ لوگ فوج میں شامل کرتے ہیں تو کیا کسی پر احسان کرتے ہیں جو انہیں گھر اور پلاٹ دیے جائیں؟ اگر ان کو ملک کا دفاع کرنا آتا تو کارگل کی مار نہ پڑتی اور بنگلہ دیش نہ بنتا۔ وقت آگیا ہے کہ فوج کو ان کی اصل جگہ پر بھیجا جائے۔
اشرف محمود، لاہور کینٹ: وردی کے تقدس اور قومی مفاد کے نام پر فوجی جنرلوں نے پاکستان کا جتنا استحصال کیا ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ فوج کا داخلی احتساب کا موجودہ نظام ناکام رہا ہے۔ زمین پر قبضے کا قصہ ہو یا ملکی آئین کو پامال کرنے کی داستان، فوج ہر کام ملکی مفاد میں کرتی ہے! کسانوں کی زمین پر فوجی قبضے کے بارے میں عدالت کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ علی رضا علوی، اسلام آباد: سچ پوچھیں تو جب سے یہ فیصلہ آیا ہے میں سوچ رہا ہوں کہ نظریۂ ضرورت اور قومی مفاد والی عدالت نے ’فوجی اور قومی‘ اہمیت کے حامل منصوبے کے خلاف فیصلہ دے کیسے دیا؟ ورنہ یہاں بھی ہمیشہ کی طرح ’قومی مفاد‘ کارفرما تھا۔ رہی بات زمین کی تو زمین کیا یہ پورا ملک فوج کا ہی ہے۔ عبدالصمد، اوسلو: فوج کی ہٹ دھرمی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بناکر پاکستانی عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے تمام چور اچکے دولت کمانے کے چکر میں فوج میں بھرتی ہوجاتے ہیں۔ کبھی اپنے مفاد کی خاطر آدھا ملک گنوا دیتے ہیں تو کبھی منتخب شدہ وزیراعظم کو سولی پر لٹکادیتے ہیں۔ مجھے اب تک حیرت ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اب تک کیسے محفوظ ہے۔
محمد جنید، کیلگری، کینیڈا : ہماری آنکھیں اب کھل جانی چاہئیں کہ ہم جس فوج کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے ہیں، اس کی حکمتِ عملی کیا ہے اور اس وعدی کے پیچھے کیسے کیسے لوگ چھپے ہوئے ہیں۔ محمد عباسی، سعودی عرب: سرکاری دفاعی ضرویات کے علاوہ کسی بھی مقصد کےلئے زمین دینا درست نہیں ہے۔ اگر سپریم کورٹ واقعی انصاف کرنا چاہتی ہے تو اسے تمام زمینیں اصل مالکوں کو واپس لوٹا دینی ہوں گی۔ اگر مالکان اسے بیچنے پر رضامند ہوں تو انہیں اسے اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کرنے کا اختیار ہونا چاہئے نہ کہ خریدار کی مرضی پر خواہ وہ فوج ہو یا کوئی بھی سرکاری ادارہ۔
ساجد خان، گجرانوالہ، پاکستان: میں بھی اس کی ایک مثال آپ کو دینا چاہوں گا کہ گجرانوالہ میں اندرونِ شہر شیخوپورہ بس سٹاپ پر واقع سو فیصد کمرشل زمین پر فوجی جوان قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جسے گجرانوالہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی دو کروڑ میں نیلام کر چکی تھی لیکن خریداروں کو قبضہ ملنے کے بجائے یہ قبضہ کور کمانڈر گجرانوالہ کے ہاتھ آیا جو کہ تاحال برقرار ہے۔ جب پرویز الٰہی نے کور کمانڈر سے بات کی تو اس نہ کہا ’مائنڈ یور اون بزنس‘۔ فدامحمد، کیچ، پاکستان: اصل بات یہ ہے کہ یہ ملک عوام کے لئے نہیں بلکہ فوج اور امریکی مفادات کی حفاظت کے لئے بنا ہے۔ ایسے میں اس طرح کے اقدامات کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ انجینئر ہمایوں ارشد احمد، کراچی، پاکستان: پاکستان میں جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے۔ مسئلہ فوج کا نہیں بلکہ سول اداروں میں بھی جسے موقعہ ملتا ہے وہ فرعون بن جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام، قانون اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے۔
خرم شہزاد، فرینکفرٹ: بدقسمتی سے پاکستان پر سب سے زیادہ فوج نے حکومت کی ہے اور ہر دفعہ برسراقتدار آنے والے فوجی سربراہ نے کچھ عرصے میں الیکشن کروانے کا کہہ کر عوام اور عدلیہ کو بیوقوف بنایا ہے۔ پاکستان میں فوج ایک ایسا ادارہ ہے جسے مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے اور جس شخص نے بھی غلطی سے اس گائے کی کسی بھی ناانصافی کے خلاف کوئی بھی آواز اٹھانے کی کوشش کی تو آئی ایس آئی والے اسے اٹھالیتے ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد کی اراضی ہتھیانے والے واقعات تو چھوٹی سی کہانی ہیں اور پھر یہ واقعہ اس وجہ سے منظر عام پر آگیا کہ ناانصافی کا شکار معصوم عوام، حساس اداروں کی دھمکیوں اور دھونس کے باوجود کسی نہ کسی طرح عدالت تک پہنچ گئے اور ایک قابل وکیل کرکے باقاعدہ اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی۔ اب اس مقدمہ کا فیصلہ تو ان کے حق میں تو ہوگیا لیکن مشکل اس بات کی ہے کہ اس فیصلے کو نافذ کرنے کی جرات کون کرے گا؟ ہمارے ملک کی تاریخ، فوج کی طرف سے ہونے والے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ معلوم نہیں وہ دن کب آئے گا جب پاکستان کے ارباب اختیار، ہماری فوج جو کہ عوام کے ٹیکس سے چلتی ہے اسے عوام کا ہمدرد اور دوست بنانے کے لئے مؤثر اقدامات کریں گے۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||