BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Tuesday, 30 November, 2004, 16:39 GMT 21:39 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
’بچے پوچھتے ہیں کہ میں کہاں کام پر جاتی ہوں؟‘
 

 
 
جنس کی مزدوری کرنے والی عورتوں کے لیے اپنی کہانیاں سنانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
جنس کی مزدوری کرنے والی عورتوں کے لیے اپنی کہانیاں سنانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
میرا نام زیبا ہے ۔ میرا تعلق لاہور شہر سے ہے۔کراچی کی اس بلڈنگ کی سیڑھیاں کس عمر میں چڑھیں یہ تو یاد نہیں پر بیس بائیس سال تو ہو ہی گئے ہیں۔

جب آئی تھی تو جسم و ذہن پر اتنی تھکان نہیں تھی جو آج ہے۔ ہم تین بہنیں تھیں، گھر کے حالات دن بدن بگڑتے جا رہے تھے کمانے والے ہاتھ کم اور کھانے والی منہ ذیادہ تھے سو میری ایک رشتہ دار نے ماں باپ کو مشورہ دیا کہ ان کو کسی کوٹھے پر کیوں نہیں بٹھا دیتیں ۔ گھر کا خرچ بھی نکل آئے گا اور تمہارے سینے پر بوجھ بھی نہ ہوں گی۔

میں چونکہ سب سے بڑی تھی سو میں نے فیصلہ کیا کہ باقی دو بہنیں یہ سیڑھیاں نہ چڑھیں اور میں گھر کا بوجھ برداشت کر لوں۔

ایک شام ڈری سہمی ایک رشتہ دار خاتون کا ہاتھ پکڑے یہاں چلی آئی۔یہ سیڑھیاں چڑھتے وقت مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا زندگی کا۔ یہاں سے واپسی کا راستہ اب میں بھولی نہ بھی ہوں تو کھو ضرور بیٹھی ہوں۔

پہلے پہل تو میری ناچ گانے کی تربیت ہوئی ۔ گانے کا مجھے یوں بھی شوق تھا سو میڈم کے سارے گانے یاد ہی تھے اس لیے مشکل نہیں ہوئی لیکن پیروں میں گھنگھرو باندھنا ایک کٹھن عمل تھا۔

پہلے لوگ گانے کی فرمائش کرتے تھے سو مجرا ہوا کرتا تھا پھر جب یہ بازار پولیس نے آٹھ سال ہوئے بند کردیا تو ظاہر ہے گانا سننے والے تو نہیں آتے پر جسم فروشی کے کاروبار کی چاندی ہوگئی۔

یہاں کی انٹری فیس تو پانچ سو روپے ہے پر جب فون کرکے بلاتے ہیں تو وہیں فیس دیتے ہیں۔

چار پانچ ہزار کے عوض کیا کچھ کرواتے ہیں میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ پھر واپس یہاں چھوڑتے بھی نہیں، آدھی رات کے بعد سی ویو کے ساحل پر اتار کر چلے جاتے ہیں۔ پھر پولیس سے خود نمٹو۔

یہ کمائی اکیلے میرے ہاتھ نہیں آتی بلکہ بائی اور سازندوں کا بھی کمیشن ہوتا ہے۔ پھر حرام کی کمائی میں نہ برکت نہ بچت سب کچھ کہیں نہ کہیں لگ جاتا ہے۔

اسی دوران میرے دو بچے بھی ہو گئے ہیں۔ ایک بیٹی ایک بیٹا ہے۔ دونوں کی ولدیت الگ الگ ہے۔

ایک کا باپ تو آج بھی اس گلی میں آتا ہے، پر میرے پاس نہیں بلکہ دوسریوں کے پاس۔ کہتا ہے کہ میں بڈھی ہو گئی ہوں۔

میں اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینیئر بنانا چاہتی ہوں۔ ابھی وہ کھارادر کے میمنی سکول میں پڑھتے ہیں۔ گھر تو ہے نہیں وہ یہاں میرے ہی ساتھ رہتے ہیں ، کبھی کبھی پوچھتے ہیں کہ میں کہاں کام پر جاتی ہوں؟

میں کہہ دیتی ہو کہ ڈاکٹر ہوں ۔ جب بڑے ہوں گے، تھوڑے سمجھدار ہوں گے تو بتا دوں گی کہ تمھاری ماں جو کچھ بھی کرتی ہے، ان گلیوں میں تمھارا مستقبل بھٹکنے نہ دے گی۔

مجھے اس تنگ و تاریک عمارت سے نفرت ہے۔ یہاں زندگی نہیں گندگی سانس لیتی ہے۔

آج بھی گھر پیسے بھیجتی ہوں، دونوں بہنوں کی شادی کر دی ہے پر ماں باپ بوڑھے ہیں۔ گھر پلٹ کر جانا تو نہیں ہوا پر سنا ہے کہ والدین اپنے اس فیصلے کو اور مجھے یاد کر کے اکثر روتے ہیں۔



نوٹ:
نیپیئر روڈ، کراچی کے ایک محلے میں جنس کی مزدوری والی ایک نوجوان خاتوں نے اپنی یہ داستان عروج جعفری سے بیان کی۔ ان خاتوں کی شناخت کو ظاہر نہ کرنے کے لیے ہم نے ان کی درخواست پر ان کی تصویر شائع نہیں کی ہے۔
 
 
اسی بارے میں
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد