|
بھارتی ایجنسیاں، نظام تباہ ہو رہا ہے
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بھارت کے شہر ممبئی میں خونریز حملوں کی ذمہ داری ایک ووسرے پر ڈالنے کے لیے وہی گھسے پٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ سکیورٹی ماہرین
کا کہنا ہے کہ ان حملوں پر ردِ عمل نہایت ’غیر پیشہ ورانہ، سست اور کمزور‘ تھا۔
بھارتی انٹیلیجینس ایجنسیاں کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے حملوں کے حوالے سے مہاراشٹر حکومت کو لگ بھگ چھ مرتبہ وارننگ دی تھیں۔ ان انٹیلیجینس رپورٹس کے مطابق مہاراشٹر حکومت کو متنبہ کیا گیا تھا کہ ممبئی کے مشہور مقامات پر، جن میں تاج ہوٹل بھی شامل ہے، حملوں کی تیاری کی جا رہی ہے۔ لیکن ممبئی حکام کا کہنا ہے کہ ان کو کوئی وارننگ نہیں ملی۔ مہاراشٹر کے سیکریٹری داخلہ کا کہنا ہے ’یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم کو یہ خفیہ معلومات ملی ہوں اور ہم ان پر رد عمل نہ کریں۔‘ لیکن سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آغاز میں شمالی بھارت سے گرفتار کیے گئے بھارتی اور پاکستانی لوگوں پر مشتمل گروہ نے تحقیقات کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان میں قائم تنظیم کے لوگوں نے ممبئی کے اہم مقامات کا جائزہ لیا ہے۔ انٹیلیجینس ایجنسیوں نے شدت پسندوں کے مابین ممبئی پر حملوں کے حوالے سے بات چیت بھی خفیہ طور پر سنی تھی۔ تاہم مقامی پولیس اور انٹیلیجینس ایجنسیاں ان اہم معلومات پر کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ اہم معلومات بر وقت متعلقہ حکام کو فراہم نہیں کی گئی۔ سینٹرل اور ریاستی حکام ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں کہ معلومات کا تبادلہ نہیں کیا گیا۔ یہ اس ملک میں ہوا ہے جہاں آدھا درجن سے زائد بڑے دہشت گردی کے واقعے ہو چکے ہیں۔ ممبئی حملے اور اس کے بعد کے واقعات ایک بار پھر بھارت کے اندرونی سکیورٹی نظام اور حکومت کے سول اور سکیورٹی اداروں میں کمزور روابط کی نشاندھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک مثال یہ ہے کہ حملوں کے چھ روز بعد بھی ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کی تعداد صحیح معلوم نہیں ہو سکی اور پولیس اور ہسپتال میں کوئی ربط نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو بڑی پریشان کن بات ہے وہ یہ ہے کہ پولیس مالی وسائل اور تربیت کی عدم فراہمی کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے۔ ان کی تنخواہیں، نگرانی کرنے کے آلات، ناکافی فارینسک لیباریٹری اور پرانے ہتھیار ان کی کارکردگی کے حوالے سے منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سکیورٹی ماہر پروین سوامی کا کہنا ہے ’ممبئی حملوں سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ پورا نظام تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ ستر کی دہائی میں تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق پولیس کے پاس نفری اور ہتھیار ہیں۔‘
ایک مقامی پولیس افسر نے مانا کہ حملہ آوروں کا سمندر کے ذریعے ممبئی پہنچنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ساحل پر نگرانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس کے پاس چند لانچ ہیں لیکن کوئی راڈار نہیں۔ بھارت کی دیگر پولیس فورس کی طرح ممبئی پولیس بھی دوسری جنگ عظیم کے ہتھیاروں سے لیس ہے۔ کئی ریاستوں میں ایک پولیس والے کی تنخواہ میونسپل ورکر کے برابر ہے۔ بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ڈیوٹی پر تعینات پولیس والوں کو کھانا فراہم نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے وہ سڑک پر لگے ڈھابوں سےمفت کا کھانا نکلواتے ہیں۔ بلٹ پروف جیکٹ بھی کم تر کوالٹی کی ہوتی ہیں اور فون پر ہونے والی باتوں کو سننے کے لیے آلات بھی ناکارہ ہیں۔ بھارت کی کمانڈو فورس بھی کچھ اچھے حالات میں نہیں ہیں۔ سات ہزار چار سو نفری پر مشتمل نیشنل سکیورٹی گارڈز کا دہلی میں قیام ہے۔ ماہرین کے مطابق زیادہ تر کمانڈو اہم شخصیات کی حفاظت پر تعینات ہیں۔ ملک کی بہترین فورس کے پاس اپنا جہاز بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کو کہیں بھی پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ پروین سوامی کا کہنا ہے ’عموماً کمانڈو فورس کو موقع پر پہنچنے اور کارروائی شروع کرنے میں چھ سے سات گھنٹے لگ جاتے ہیں اور کئی بار تو اس سے بھی زیادہ دیر لگی۔‘ ان کا کہنا ہے کہ کمانڈو فورس کی تربیت بھی اطمینان بخش نہیں۔ ’ان کی تربیت ایسی نہیں کہ ممبئی حملوں کی طرح کئی مقامات پر کارروائی کر سکیں۔‘ ان کی تربیت میں کمی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ممبئی جیسے حملے کبھی کبھار ہوتے ہیں۔ سکیورٹی ماہر اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ اسی لیے
اس کی کارروائی اتنی خراب تھی۔ ’دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘
ممبئی حملوں کے بعد مقامی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اپنی کمانڈو فورس تشکیل دیں گےاور چار ماہ میں پانچ سو اہلکار تیار کیے جائیں گے۔ لیکن نیشنل سکیورٹی گارڈز کی ابتدائی تربیت کو چھ ماہ درکار ہوتے ہیں اور مہاراشٹر میں کوئی کمانڈو سینٹر نہیں ہے۔ اڑیسہ ریاست نے ماؤ نوازوں کے خلاف کارروائی کے لیے آٹھ ہزار پولیس اہلکار بھرتی کیے لیکن وہ چھ ماہ میں صرف تین سو پچاس اہلکاروں کو تربیت دے سکے۔ بہت ہی سست رفتار اور کاہل بیوروکریسی کی وجہ سے بھی پولیس فورس کو جدید اسلحے سے لیس کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اتر پردیش پولیس کو نگرانی کے آلات درآمد کرنے میں چار سال لگے۔ جب تک یہ سامان آیا تو اس وقت تک یہ آلات تکنیکی طور پر پرانے ہو چکے تھے۔ ایک پولیس افسر نے تو ویب سائٹ سے اپنے کریڈٹ کارڈ پر ساٹھ ڈالر کا آلہ اپنی فورس کے لیے خریدا کیونکہ اگر بیوروکریسی کے ذریعے لینے کا انتظار کرتے تو سال نہیں تو مہینے لگا جاتے۔ بیوروکریسی کے کام کرنے کے طریقے سے انٹیلیجینس ایجنسیاں بھی نالاں ہیں۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے پاس صرف دو عربی اور دو چینی زبان کے ماہرین ہیں۔ ان میں سے بھی ایک چینی زبان کے ماہر نوکری چھوڑ گئے ہیں کیونکہ تنخواہ کم ملتی ہے۔ اگر نظام بہتر نہیں کیا گیا تو بھارت دہشت گردوں کے لیے ایک نہایت ہی آسان ہدف بن جائے گا۔ |
اسی بارے میں
’کچھ عناصر کا تعلق پاکستان سے‘28 November, 2008 | انڈیا
تاج ہوٹل میں شدید لڑائی: فائرنگ، دھماکے، آگ، دھواں 29 November, 2008 | انڈیا
کیا حملہ آوروں کو صرف شہرت کی تلاش تھی؟30 November, 2008 | انڈیا
غیر ملکی ایجنسیاں ممبئی میں02 December, 2008 | انڈیا
پاک بھارت کشیدگی، رائس پاکستان میں04 December, 2008 | انڈیا
|
||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|
|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||