|
یوپی انتخابات: مسلم ووٹرز کا المیہ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ریاست اتر پردیش کے اسبملی انتخابات میں اس بار مسلم رائے دہندگان کشمکش سے دوچار ہیں۔ اس کا احساس سیاسی مبصرین اور مسلم دانشوروں کو بھی ہے جن کے مطابق اترپردیش میں کسی ایک پارٹی کو چارسو تین رکنی ایوان میں واضح اکثریت نہیں ملے گی۔ مرکز میں برسراقتدار کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی اور ان کے بیٹے راہول گاندھی نے پوری شدت سے انتخابی مہم چلا رکھی ہے۔ راہول گاندھی خاص طور سے مسلم اکثریت والے علاقوں میں ووٹروں سے رابطہ کررہے ہیں۔ انہوں نے درالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم سہارنپوراور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خاصا وقت صرف کرکے مسلمانوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ کانگریس کے نشانے پر خاص طور سے ملائم سنگھ کی جماعت سماجوادی پارٹی ہے جس کے ساتھ مسلم راۓ دہندگان پچھلے پندرہ سال سےوابستہ ہیں۔ دوسری طرف کچھ مسلم رہنما بھی اپنی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ انتخابی میدان میں ہیں۔ جماعت اسلامی ہند اترپردیش نے چودہ اسبملی حلقوں میں مومن کانفرنس، انڈین نیشنل لیگ، پرچم پارٹی، نیشنل لوک تانترک پارٹی ، مسلم مجلس، مسلم لیگ، یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے امیدواروں کو اپنی حمایت اور تائید دینے کا اعلان کیا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین مولانا ابولافرقان فرنگی محلی کا کہنا ہے کہ بڑی سیاسی پارٹیاں نہیں چاہتیں کہ مسلمان متحد ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایف سے وابستہ کچھ مسلم لیڈروں کو خریدا گیا، کوئی ملائم سنگھ یادو کے ساتھ چلا گیا تو کوئی دباؤ میں کنارہ کش ہوگیا۔ اس اتحاد نے سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ اور رکن پارلیمنٹ تاج پیر کے جن مورچہ کے ساتھ مفاہمت کی ہے جس نے 373 اسبملی حلقوں میں اپنے امیدوار اتارے ہیں۔
مولانا ابوالفرقان کا کہنا ہے کہ آج جتنے مسلمانوں کے مخالف ہیں وہ سب ملائم سنگھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پرچم پارٹی کے صدر سلیم پیرزادہ علی گڑھ سے انتخابی میدان میں ہیں۔ ان کے مقابلہ میں چار دوسرے مسلم امیدوار بھی ہیں۔ سلیم پیرزادہ اس اتحاد کا حصہ ہیں جسے جماعت اسلامی کی تائید حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ موجودہ اسمبلی انتخابات کے بعد ملائم سنگھ وہیں ہوں گے جہاں وہ آج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملائم سنگھ بی جے پی سے ملے ہوئے ہیں۔ مسلم ووٹوں کی تقسیم کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ مسلمان ' ٹیکٹکل' ووٹنگ کریں گے اور کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہ ملنے میں ہی ان کا فائدہ ہے‘۔ انڈین نیشنل لیگ کے صدر محمد سلیمان کا کہنا ہے کہ اس بار مسلمان کئی خیموں میں تقسیم ہیں۔ مومن کانفرنس کے صدر نعیم اللہ انصاری کا کہنا ہے کہ ریاست کے 159 اسمبلی حلقوں میں مسلمان تیس سے پچاس فیصد کے درمیان ہیں لیکن پہلے کانگریس ان کا استحصال کرتی تھی اور اب سماجوادی پارٹی کر رہی ہے۔
مسٹر انصاری کا کہنا ہے ' اب ہمیں سیکولر جماعتوں کے پیچھے پیچھے چلنے کی روش ترک کرنی ہوگی اور ان کے ساتھ برابری کی حصہ داری کے ساتھ اتحاد کرنا ہوگا۔' لکھنو کے مولانا خالد رشید فرنگي محلی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اب تک ووٹ بینک کے طور پر استمعال کیا جاتارہا ہے لیکن اب حالات تبدیل ہورہے ہیں اس لیے صرف مغربی یو پی کے 58 اسبملی حلقوں میں مختلف پارٹیوں نے ایک سو تئیس مسلم امیدوار انتخابی میدان میں اتارے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم ووٹوں کی تقسیم سے بھاجپا کو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن یہ تقسیم بڑے پیمانے پر نہیں ہوگی۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی، جن مورچہ، آر ایل ڈی میں مسلم ووٹ تقسیم ہوں گے لیکن اس کا مثبت اثر یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے سلسلے میں سیکولر پارٹیوں کو عملی اقدامات کرنے اور مثبت پالیسیاں اپنا نے کا احساس ہوگا۔ | اسی بارے میں مسلم اقلیت نہیں: فیصلہ معطل06 April, 2007 | انڈیا ’راہل بیان مذہبی جذبات کی توہین‘20 March, 2007 | انڈیا بی جے پی اور جے ڈی یو کا اتحاد11 March, 2007 | انڈیا پولیس کو اسلام کے بارے میں معلومات03 March, 2007 | انڈیا گودھرا، یہ کیسی سزا؟28 February, 2007 | انڈیا | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||