ریاض مسرور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں حکومت 'فوجی انخلا' کے بعد والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پیشگی تیاریوں میں مصروف ہے۔
اس سلسلے میں طویل مذاکرات کے بعد مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کو جموں کشمیر آرمڈ پولیس کی مزید پندرہ بٹالین قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
اندرونی سلامتی کو انڈین افواج کی مدد کے بغیر یقینی بنانے کے لیے جموں کشمیر پولیس سراغرسانی کا ایک مربوط نظام بھی تشکیل دے رہی ہے۔ اسکے تحت پولیس نے ریاستی سراغرساں ادارے میں ایک انٹیلجنس سکول قائم کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے گزشتہ ہفتے نئی دلّی میں ہندوستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کے دوران ریاست میں پنجاب کےطرز کے فوجی انخلا کی بات کی تھی۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ، ' پنجاب میں پہلے ملی ٹینسی کا تھریٹ (خطرہ) تھا۔ پھر جب عام لوگوں نے تشدد کے مقابلے امن اور سلامتی کو چُنا تو لوکل پولیس نے سلامتی کی ساری ذمہ داری سنبھالی۔ اگر یہ فارمولہ پنجاب میں کامیاب ہے تو یہاں کیوں نہیں ہوگا ۔'
ریاست کے وزیرخزانہ طارق حمید قرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'مرکزی حکومت نے اندرونی سلامتی کی ذمہ داری ریاست کو سونپنے کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے، لیکن اس سے پہلے ریاست کے سیکورٹی نظام کو درست کرنا ہوگا۔' مسٹر طارق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد اور مسٹر سنگھ کے درمیان اس سلسلے میں ہوئی میٹنگ میں بھی موجود تھے۔
طارق کے مطابق نئی دلّی نے مقامی پولیس کی ایسی پندرہ بٹالین قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے، جو خالصتاً ریاستی حدود میں کام کرنے کے لئے ہوں۔
یہ پوچھنے پر کہ آیا یہ اقدامات مستقبل میں 'فوجی انخلا' کا اشارہ ہیں، طارق کہتے ہیں کہ ' فوج کا ایک لمیٹڈ مینڈیٹ ہوتا ہے اور جب وہ پورا ہوجائے تو فوج کو واپس بارکوں میں جانا ہی پڑتا ہے ۔'
مسٹر طارق نے کئی سیاسی گروپوں کی جانب سے ریاست کو ایک غیرفوجی علاقہ قرار دینے کے مطالبے پر رائے زنی سے معذرت چاہی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی پی ڈی پی نے ہی نئی دلّی سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جموں کشمیر میں لوگوں کو 'سچ مچ کے عوامی راج' کا احساس دلانے کے لئے شورش کامقابلہ کرنے کا پورامنڈیٹ ریاستی پولیس کو ہی دیا جائے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق فی الوقت جموں کشمیر پولیس پچھتر ہزار نفوس پر مشتمل واحد مقامی فورس ہے۔ اسکے علاوہ شورش کے دوران عارضی طور پر تعینات کئے گئے 'سپیشل پولیس آفیسروں' کی تعداد پچیس ہزار ہے۔
طارق کا کہنا ہے کہ مزید پولیس بٹالین قائم کرنے سے ساٹھ ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا۔
شورش کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک 'نان ملٹری' نظام، جس میں افواج کا دخل نہ ہو، تشکیل دینے کے لئے بھی حکومت سرگرم ہوگئی ہے۔
اس حوالے سے جرائم کی تحقیقات سے متعلق ادارہ سی آئی ڈی کے صدر دفتر میں ایک تربیت گاہ قائم کی گئی ہے، جہاں پولیس افسروں کو شورش پسندوں سے نمٹنے کے جدید طریقہ کار سکھائے جائینگے۔
ایک اعلی پولیس افسر کے مطابق تربیت کے دوران افسروں کو عام لوگوں میں گُھل مل کر اطلاعات حاصل کرنے کا فن سکھایا جائے گا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دلّی پولیس کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔
جموں کشمیر پولیس کے صوبائی سربراہ ایس ایم سہائے نے جمعرات کو کپواڑہ میں ایک تقریب کے دوران یہ انکشاف کیا کہ وادی میں فی الوقت سات سومسلح جنگجو سرگرم ہیں، جو پولیس اور فوج کو یکساں شدّت کے ساتھ نشانہ بنا رہے ہیں۔