|
کرناٹک میں بی جے پی کا کھیل | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کرناٹک میں بی جے پی کا کھیل آندھرا پردیش کے بعد اب پڑوسی ریاست کرناٹک بھی فرقہ وارانہ تشدد اور کشیدگی کی لپیٹ میں ہے اور ساحلی شہر منگلور کے فسادات میں دو افراد کی جانیں جا چکی ہیں۔ دوسری طرف ایک متنازعہ مذہبی مقام کے حوالے سے بی جے پی نےایک نئی تحریک شروع کی ہےجس سے حالات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں۔ چکمگلور کے پاس ایک صوفی سنت بابا بڈھن کی قبر مسلمانوں میں ایک درگاہ کی حیثیت سے مشہور ہے جبکہ ہندو اسے اپنی ایک مذہبی شخصیت دتاتریہ سے منسوب کرتے ہیں- ان دعووں اور جوابی دعووں کے نتیجہ میں کئی مرتبہ فرقہ وارانہ ٹکراؤ کی نوبت آچکی ہے- اس بار یہ معاملہ اس لیئے زیادہ حساس ہے کہ تحریک چلانے والی بی جے پی اقتدار میں شریک ہے- وہ اس مزار تک ایک جلوس نکالنے پر مصر ہے لیکن جنتادل ایس نے بی جے پی کے مجوزہ جلوس اور وہاں پوجا پاٹ کے منصوبوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے اور اس پر پابندی عائد کردی ہے- میسور کے واقعات سے بھی بی جے پی اور جنتادل ایس کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ کئی حلقوں نے الزام عائد کیا ہے کہ منگلور کے فسادات کے لیئے بی جے پی اور اس کی حلیف ہندو نظریاتی تنظیمیں ذمہ دار ہیں- اس پر ایک وزیر اور بی جے پی کے لیڈر ناگراج شیٹی نے کابینہ سے استعفٰی دے دیا ہے- بی جے پی جلوس پر پابندی عائد کیئے جانے سے ناراض ہے اور اس کی کرناٹک شاخ کے صدر ڈی وی سدا نند گوڑا نے دھمکی دی ہے کہ اگر بی جے پی کو اس کی پالیسیوں اور نظریات پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا گیا تو وہ اقتدار سے نکل بھی سکتی ہے- سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے وزیر شنکر مورتی کا ٹیپو سلطان کو ایک متعصب حکمراں بتانا اور مذہبی جلوس نکالنے کی کوشش جیسے واقعات ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں اوراس کا مقصد ریاست میں فرقہ وارانہ امن کو متاثر کرنا ہے-
آصف جاہی دور کی تاریخ کے ورثے کا ایک بڑا حصہ اب منظر عام پر آگیا ہے- ان حکمرانوں کے قدیم ہتھیاروں کا ایک ذخیرہ تاریخی چومحلہ پیلس میں پہلی مرتبہ نمائش کے لیئے رکھا گیا ہے- کافی طویل عرصے کی محنت اور 834 ہتھیاروں کی صفائی و مرمت کے بعد انہیں اس نمائش میں پیش کیا گیا- ان میں مختلف قسم کی تلواریں، خنجر ، بھالے اور ڈھالیں شامل ہیں- یہ ہتھیار تقریبًا 2 ہزار تلواروں اور دوسرے اسلحہ کے ایک بڑے ذخیرے کاحصہ ہیں جو گزشتہ 60 سال سے گرد آلود توشے خانے میں پڑے ہوئے تھے- ان کی اصلی حالت بحال کرنے اور چمک دمک واپس لانے کا بیڑہ شہزادی اسری نے اٹھایا تھا جو موجودہ نظام مکرم جاہ بہادر کی پہلی مطلقہ بیوی ہیں- یہ دراصل اس بڑے پراجیکٹ کا حصہ ہے جس کے تحت شہزادی اسری نے حالت زار کا شکار نظام کے محلات اور ان میں رکھی ہزارہا نوادرات کی بحالی کا کام شروع کیا ہے۔ چو محلہ پیلیسس میں شامل خلوت محل اور ایک دوسرے محل کی مرمت اور بحالی کے بعد انہیں پہلے ہی میوزیم کی حیثیت سے عوام کے لیئے کھول دیا گیا ہے- ان محلات میں شاہی حکمرانوں اور ان کے افراد خاندان کی قیمتی پوشاکوں اور تصاویر کی دو الگ الگ نمائشیں بھی جاری ہیں- شہزادی اسری کا کہنا ہے کہ ان کوششوں کا مقصد نئی نسل کو آصف جاہی خاندان اور حیدرآباد کی ماضی کی عظمتوں سے واقف کروانا ہے-
سٹیم سیلز کا کمال، گئی ہوئی بینائی واپس طب اور سائنس کے میدان میں ہونے والی جدید تحقیق کس طرح عام لوگوں کے لیئے فائدہ مند ہوسکتی ہے اس کی ایک مثال حیدرآباد کے ایل وی پرساد آئی انسٹیٹیوٹ میں ہونے والا وہ کام ہے جس کی بدولت کئی لوگوں کی تاریک زندگی میں بصارت کی روشنی پھیلی ہے- یوں تو سٹیم سیلز کے ذریعہ نابیناؤں کے علاج کی کوشش گزشتہ پانچ برسوں سے چل رہی ہے لیکن حال ہی میں اسے قومی سطح پر اس وقت توجہ حاصل ہوئی جب دہلی کے بم دھماکوں میں بینائی کھودینے والے ایک بس ڈرائیور کلدیپ سنگھ کی بینائی واپس لوٹ آئی- کلدیپ سنگھ کی دونوں آنکھیں اس وقت ضائع ہوگئی تھیں جب انہوں نے اپنی بس کے مسافروں کی جان بچانے کے لیئے بس میں رکھے ایک بم کو باہر پھینکنے کی کوشش کی اور وہ ان کے بالکل قریب پھٹ پڑا۔ ایک برس کے اندر کلدیپ کی ایک آنکھ کی بصارت بحال کرنے کا یہ کارنامہ ڈاکٹر ویریندر سانگوان نے انجام دیا ہے-
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کلدیپ سنگھ کی بائیں آنکھ پوری طرح ختم ہوچکی تھی جبکہ دائیں آنکھ میں زندگی کے کچھ آثار تھے- چنانچہ بائیں آنکھ سے کچھ سٹیم سیل لے کر ان کی تجربہ گاہ میں افزائش کی گئی اور پھر انہیں کلدیپ کی دائیں آنکھ میں داخل کیا گیا اور اسی کے ساتھ مریض کے کورنیا کی تبدیلی کا آپریشن بھی کیا گیا اور رفتہ رفتہ کلدیپ سنگھ کی آنکھ کی روشنی واپس آنے لگی- اس وقت وہ 30 فیصد دیکھ سکتا ہے اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مزید کچھ آپریشنوں کے بعد کلدیپ کی بینائی مزید بہتر ہوجائے گی- کلدیپ سنگھ خوش ہیں کیونکہ وہ اس حادثہ کے بعد پیدا ہونے والے اپنے بیٹے کو دیکھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔ ڈاکٹر سانگوان کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ علاج ہر طرح کے اندھے پن کو دور نہیں کرسکتا بلکہ صرف خاص نوعیت کی خرابی کو ہی دور کرسکتا ہے- اس کی مدد سے صرف انہی آنکھوں کی روشنی واپس لائی جاسکتی ہے جن کی اوپری سطح کو نقصان پہنچا ہو جبکہ اندر کا پورا حصہ محفوظ ہو- |
اسی بارے میں اِنفارمیشن ٹیکنالوجی بمقابلہ کرپشن01 July, 2006 | انڈیا ممبئی دھماکے اور حیدرآباد: دکن ڈائری 15 July, 2006 | انڈیا زمین، سمگلر کا کتا اور مائکروسوفٹ21 July, 2006 | انڈیا دکن ڈائری: خواب دیکھنا مت چھوڑ29 July, 2006 | انڈیا دکن ڈائری: طوفانی بارش، ماؤوِسٹ محو فکر05 August, 2006 | انڈیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||