Tuesday, 16 May, 2006, 12:05 GMT 17:05 PST
ریاض مسرور
سری نگر
پچیس مئی کو بھارت میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں علیحدگی پسندوں کی شرکت کو یقنینی بنانے کے لیئے مرکزی حکومت نے تازہ کوششیں شروع کر دی ہیں۔
حریت کانفرنس کے چیرمین میر واعظ عمر فاروق نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نئی دلی سے چند سرکاری اور غیر سرکاری لوگوں نے پیر کے روز ان سے رابطہ کیا ہے۔
میر واعظ کا کہنا ہے کہ حریت کانفرنس کے لیئے گول میز کانفرنس کوئی معنی نہیں رکھتی،’ سہ رخی بات چیت زیادہ اہم ہے‘۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ سری نگر میں ہندوستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر منہومن سنگھ سے ملاقات کے خلاف نہیں ہیں لیکن ان کو گول میز کانفرنس میں ہند نواز سیاسی رہنماؤں کے ہمراہ بیٹھنے پر اعتراض ہے۔
حریت کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بتا یا کہ ایک با اثر کشمیری تاجر فی الوقت حریت قیادت کو گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیۓ آمادہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ادھر حکومت ہند کے وزیر پروفیسر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سنگھ کا دورہ کشمیر ابھی تک ’سٹینڈ بائی‘ ہے اور ان کے ’شیڈول‘ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
معروف قانون داں اور تبصرہ نگار ڈاکٹر ایس ایس حسین کے مطابق حکومتِ ہند گول میز کانفرنس کو بامعنی بنانے کے لیۓ حریت کو آمادہ کرنے کی کوشش جاری رکھے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ نئی دلی اور حریت کانفرنس کسی درمیانی راہ کے لیئے آمادہ نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر حسین کا ماننا ہے کہ ’گول میز کانفرنس میں حریت کی شرکت کا معاملہ اب بھی ففٹی ففٹی ہے۔‘
اس سال پچیس فروری کوہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں کشمیر کے کسی بھی علیحدگی پسند اتحاد یا جماعت نے شرکت نہیں کی تھی۔
حریت کانفرنس اور دیگر علحیدگی پسندوں کو گول میز پر بلانے کی متواتر کوششوں پر حکومت ہند کو اپوزیشن کی تنقید کا بھی سامنا ہے۔ بی جے پی کے سینئر رہنماؤں نے پچھلے دو روز میں کئی مرتبہ یہ بیان دیا کہ حکومت علیحدگی پسندوں کے آگے جھک رہی ہے۔