Sunday, 26 March, 2006, 10:54 GMT 15:54 PST
عمر فاروق
بی بی سی اردو ڈاٹ کام حیدر آباد
بات دکن کی ہو اور نظام دکن کا ذکر نہ ہو تو کچھ ادھورا سا لگتا ہے ان دنوں نظام ثامن یا آٹھویں نظام شہزادہ مکرم جاہ میر برکت علی خان کا نام ایک بار پھر سرخیوں میں ہے اور وجہ ایک بار پھر ان کی نجی زندگی ہے کیونکہ ان کی تیسری مطلقہ شریک حیات اور ترکی کی سابقہ ملکہ حسن منولیا اونور نے یہاں کی ایک عدالت میں ان کے خلاف مہر، نان نفقہ اور شاہی جائیداد میں اپنی بیٹی کے حصہ کے لئے ایک مقدمہ دائر کر رکھا ہے- ساتھ ہی انہوں نے ذرائع ابلاغ میں بھی اپنے سابق شوہر کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے۔
منولیا اونور سے مکرم جاہ کی شادی کوئی پندرہ سولہ برس قبل ہوئی تھی اور اِس کے کچھ ہی عرصے بعد دونوں میں علیحدگی ہوگئی تھی۔ پتہ نہیں دونوں کی ملاقات کب اور کیسے ہوئی تھی لیکن جب شاذو نادر ہی حیدرآباد کا رخ کرنے والے شہزادے نے حیدرآباد میں قدم رنجہ کیا تو ان کے ساتھ ایک نازک اندام حسینہ بھی تھی اور اس کے کچھ ہی دن بعد یہ خبر پھیلی کہ ایک نجی محفل میں نواب صاحب نے منولیا سے رشتہ ازدواج جوڑ لیا ہے۔ اور پھر دو چار برسوں میں ہی یہ خبرحیدرآباد پہنچی کہ ان کی طلاق ہوگئی ہے تو اس پرکسی کو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اس وقت تک وہ مراکش کی ایک حسینہ کی زلف کے اسیر ہوچکے تھے-
مکرم جاہ حیدرآباد کے آخری اور سادگی پسند نظام کے پوتے تھے۔ عثمان علی خان نے جانشینی کیلیئے اپنے بڑے فرزند اعظم جاہ پر اپنے پوتے مکرم جاہ کو ترجیح دی تھی اور اس طرح لندن کے تعلیم یافتہ مکرم جاہ کو آٹھویں نظام کا خطاب حاصل ہوگیا تھا۔ لیکن آصف جاہی سلطنت کے زوال کے بعد حیدرآباد کی جب ہوا بگڑی تو شہزادے کو یہاں کا ماحول کبھی راس نہیں آیا حالانکہ دادا جان مرحوم نے ٹھیک اسی طرح ان کیلیئے ترکی کی ایک حسین شہزادی اسریٰ کی صورت میں شریک حیات کا انتخاب کیا جیسا کہ انہوں نے اس سے قبل اپنے بڑے بیٹے کیلۓ ترکی کے آخری خلیفہ عبدالحمید کی دختر شہزادی درشہوار کا انتخاب کرکے دنیا کی دو بڑی مسلم سلطنتوں کے درمیان ایک رشتہ قائم کیا تھا۔
چنانچہ اب منولیا نے حیدرآباد کی عدالت میں ساڑھے چار ملین ڈالر معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے لیکن نو برس سے معاملہ وہیں کا وہیں پڑا ہے اور اس میں تیزی لانے کیلیئے منولیا اب حیدرآباد میں ہی پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔
مکرم جاہ کی مالی حالت میں کچھ برس قبل کچھ بہتری آئی تھی جب حکومت ہند نے نظام کے ہیرے جواہرات دو سو اٹھارہ کروڑ روپے میں خریدے اور چونکہ مکرم جاہ وارث اولیٰ تھے اس لیئے انہیں اس دولت کا سب سے بڑا حصہ ملا اور تب ہی سب منولیا اونور اور دوسرے قرض خواہ اپنا حصہ وصول کرنے کیلۓ زیادہ شدت کے ساتھ سرگرم ہوگئے ہیں۔
ویسے دلچپسپ بات یہ ہے کہ یہ قِصّہ ایک ایسے وقت زبان زد خاص و عام ہے جبکہ ان کی پہلی شریک حیات شہزادی اسریٰ سے مکرم جاہ کے تعلقات ’دوستانہ‘ ہوگۓ ہیں۔ شہزادی اسریٰ جو مکرم جاہ کے دو بچوں کی والدہ ہیں اب نظام کے کچھ محلات کی تعمیر و مرمت و تزئین نو میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
آصف جاہی خاندان کی املاک و محلات کو زبوں حالی سے نکالنے کیلۓ اسریٰ نے مکرم جاہ کی اجازت سے یہ سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیئے ہیں اور ان ہی کی کوششوں کے نتیجے میں ’پنچ محلات‘ میں ایک نئی جان آئی ہے۔ چار مینار کے قریب ہی واقع یہ محلات جہاں حیدرآباد کے آخری نظام کا دربار لگتا تھا کھنڈرات میں تبدیل ہوگۓ تھے لیکن ماہرین کی مدد سے ان محلات کی مرمت کا کام کیا گیا اور ان کی اصل خوبصورتی کو بحال کیا گیا اور یہ محلات عوام کے نظارے کیلیئے کھول دیے گئے ہیں جبکہ شہزادی اسریٰ کی توجہ اب فلک نما جیسے دوسرے محلات پر مرکوز ہے۔
گزشتہ دنوں یہ شاہی خاندان اس وقت بھی خبروں میں آیا تھا جبکہ شہزادے مکرم جاہ اور مفخم جاہ کی والدہ اور ترکی کی شہزادی درشہوار کا لندن میں انتقال ہوگیا۔ وہ بہت ہی خوبصورت اور شاندار شخصیت کی مالک تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ عبدالحمید کی اس جدید تعلیم یافتہ دختر اور نظام حیدرآباد کے فرزند کا یہ رشتہ طے کرانے میں مشہور مجاہد آزادی مولانا شوکت علی نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا اور سیاسی اعتبار سے اسے اس لۓ اہم سمجھا گیا تھا کہ اس وقت ترکی کی خلافت عثمانیہ اور حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت دونوں دنیا میں مسلمانوں کے دو اہم ترین سیاسی اقتدار اور شان و شوکت کے مراکز سمجھے جاتے تھے۔ شہزادی درشہوار سلطنت آصف جاہی کے عروج و زوال کی چشم دید گواہ بن کر اپنے وطن ترکی واپس چلی گئیں تھیں مگر پھر بعد میں انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت لندن میں ہی گزارا۔ ان کی موت سے ایک شاندار ماضی کے ساتھ حال کے رشتے کی آخری ڈور کٹ گئی-
حیدرآباد کی جہاں کئی اور شناختیں ہیں وہیں یہ شہر اپنی خوش مزاجی اور مزاح کیلۓ بھی بہت مشہور ہے اور اس نے ایسے کئی مزاح نگار اور کامیڈین دیئے ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں قہقہے بکھیرے۔ کسی زمانے میں حیدرآباد کے مزاحیہ ڈرامے ’ادرک کے پنجے‘ کا ڈنکا پوری دنیا میں بجھتا تھا۔ اسی مناسبت سے پاکستان کے شہرہ آفاق کامیڈین اور مزاحیہ اداکار عمر شریف کی حیدرآباد میں آمد یہاں کے لوگوں کیلیئے خاص اہمیت رکھتی ہے۔
عمر شریف ’بکرا قسطوں پر‘ جیسے ڈراموں کے حوالے سے پہلے ہی ہندوستان اور حیدرآباد میں کافی مقبول ہیں۔ اب وہ ہندوستان میں اپنی ہدایت کاری میں بننے والی پہلی فلم ’تم میرے ہو‘ کی شوٹنگ کے سلسلے میں حیدرآباد آرہے ہیں۔ یہ شوٹنگ حیدرآباد کے مقامات میں ایشیا کے سب سے بڑے اسٹوڈیو راموجی فلم سٹی میں ہوگی۔ اس میں گزرے زمانے کے سُپر اسٹار راجیش کھنہ، اشمت پٹیل اور آرتی چھابریہ اہم کردار ادا کررہے ہیں اور یہ ہندوستان میں بننے والی پہلی ایسی فلم ہے جس کی ہدایت ایک پاکستانی فنکار دے گا۔ لیکن فلم شوٹنگ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حیدرآبادی عوام کو عمر شریف کی اصلی صلاحیت یعنی ان کے مزاح سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔
ان کے اس دورے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمر شریف کے مداحوں نے لگے ہاتھوں ان کا ایک شو بھی مقرر کردیا ہے۔ جہاں پہلی بار ان کے فن اور حیدرآبادی عوام کے قہقہوں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔