|
اردو زندہ ہے، زندہ رہے گی: جاوید صدیقی | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بالی وڈ سے اردو زبان کا رشتہ کب سے ہے اور اس رشتے کے پیچ و خم کیا ہیں ؟ کیا یہ رشتہ ہمیشہ رہے گا یا پھر نئی نسل کا مغربی کلچر فلموں سے اردو کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا ؟ ان تمام سوالات کو لے کر بی بی سی اردو ڈاٹ کا کی جانب سے ممبئی میں ایک مباحثہ کا انعقاد کیا گیا جس میں بالی وڈ کے کئی نامور اسکرپٹ رائٹرز مکالمہ نویس اور نغمہ نگاروں نے شرکت کی۔ مباحثے کی میزبانی بی بی سی اردو کے مظہر زیدی اور عالیہ نازکی نے کی۔ مباحثے میں فلم شطرنج کے کھلاڑی اور دل والے دلہنیا لے جائیں گے کے اسکرپٹ رائٹر جاوید صدیقی ، فلم ’نکاح‘ اور ’سلسلہ‘ کے نغمہ نگار اور کئی فلموں کے مکالمہ نویس اور صحافی حسن کمال، تھیٹر فنکار اور فلم ’بھگت سنگھ‘ کے علاوہ کئی فلموں کے اسکرپٹ رائٹر پیوش مشرا اور فلم ’پرندہ‘ اور ’واستو‘ کے کہانی نویس امتیاز حسین نے شرکت کی ۔ ممبئی کے سینٹ زیویئرس کالج آف کمونیکیشن کے ہال میں پروگرام کا آغاز عالیہ نازکی نے کیا ۔انہوں نے بالی وڈ اور اردو زبان رشتہ پر پینل کے شرکاء سے سوالات کئے ۔ جاوید صدیقی نے فلموں کے لئے لفظ ’بالی وڈ‘ پر اعتراض کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ لفظ اردو زبان میں بہت غلط طریقہ سے گھس آیا ہے۔ فلموں میں اردو زبان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ فلم کی کوئی زبان نہیں ہوتی بلکہ کردار اپنی زبان بولتا ہے ۔فلم ’شطرنج کے کھلاڑی‘ جس دور کی فلم تھی اس میں بحیثیت اسکرپٹ رائٹر کے انہوں نے فارسی اور اردو کے الفاظ استعمال کیے جبکہ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ میں انہوں نے ہلکی پھلکی زبان کا استعمال کیا کیونکہ یہ ان کے کرداروں کا تقاضہ تھا، البتہ فلموں میں نغموں کی زبان کو آپ اردو کہہ سکتے ہیں ۔ جاوید صدیقی نے اعتراف کیا کہ زمانے کے ساتھ زبان میں تبدیلی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر ہی اسکرپٹ رائٹر کام کرتا ہے اس لئے فلم ’یہ دل مانگے مور‘ کے مکالمے انہوں نے آدھے انگریزی اور آدھے اردو میں لکھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلموں میں اردو زبان آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اردو محبت ، جذبات اور رابطہ کی عام فہم زبان ہے۔ پیوش مشرا نے جاوید صدیقی کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اردو ایک بہت آسان لیکن بہت دل موہ لینے والی زبان ہے۔ ان کے بقول انہوں نے اس زبان کے شعراء کو دیو ناگری میں پڑھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ زبان بدلی ہے اس لئے جب انہوں نے فلم بھگت سنگھ لکھی تو اس میں حالانکہ دور پرانا تھا لیکن انہوں نے اس کردار کو اس دور کی زبان دی کیونکہ انہیں حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا ۔انہوں نے اردو کے مشہور شاعر مجروح سلطان پوری کی مثال دی کہ انہوں نے فلم ’دل دے چکے صنم‘ میں کس طرح زبان کے ساتھ سمجھوتہ کیا تاہم پیوش مشرا نے کہا کہ فلموں کی زبان ہندوستانی ہے اور ہندوستانی ہی رہے گی البتہ اس میں اردو کی چمک دمک یوں ہی رہے گی ۔ حسن کمال کا کہناتھا کہ فلم کی زبان ہمیشہ سے اردو رہی ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں کیونکہ اب مادری زبان کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے اور ’مادری زبانیں صرف گھروں میں خادموں یا پھیری والوں سے بات کرنے کی حد تک محدود ہو گئی ہیں۔‘ حسن کمال نے کہا کہ ’اب دو طرح کی فلمیں بن رہی ہیں ایک کا کلچر ملٹی پلیکس تھیٹرز کے لئے ہے اور دوسری بھوجپوری یا دیگر زبان کی فلمیں۔‘ حسن کمال نے اردو کے بارے میں کہا کہ یہ ہندوستان کی واحد زبان ہے جس کی بنیاد سنسکرت کے علاوہ فارسی، ترکی، عربی، اودھی، کھڑی بولی اور کسی حد تک انگریزی زبان پر رکھی گئی ہے۔ امتیاز حسین کے مطابق پرانے دور کی فلموں میں جو زبان استعمال ہوتی تھی وہ اب بہت حد تک بدل چکی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ زبانیں بدلتی ہیں۔اب روزمرہ کی زبان میں ہم انگریزی کا ترجمہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نےفلم ’واستو‘ میں جس زبان کا استعمال کیا وہ ایک غنڈے کی زبان تھی اور یہ کردار کا تقاضا تھا۔ دوران مباحثہ ایک مکالمہ نویس یا کہانی نویس کی حدود کی بات بھی ہوئی۔ سوال تہ تھا کہ کہانی یا مکالمہ نویس کو کس حد تک زبان کے استعمال میں چھوٹ ملنی چاہیے اور یہ حد کون مقرر کرے گا؟ حاظرین نے پینل کے شرکاء سے سوالات کیے۔ انہوں نے پوچھا کہ فلموں میں اردو زبان کے استعمال کے باوجود فلمساز ہندی کا سرٹیفکٹ کیوں لیتے ہیں؟ پینل کے ارکان نے جواب میں کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ’فلم فیئر ایوارڈ‘ دینے والوں نے شرط رکھی تھی کہ صرف انہیں فلموں کو ایوارڈ کے لئے نامزد کیا جائے گا جو ہندی کی ہوں گی۔ حاظرین کے پاس بے شمار سوالات تھے لیکن وقت کی کمی کے باعث اس مباحثہ کو یہ کہہ کر سمیٹا گیا کہ اردو زبان کبھی مر نہیں سکتی اس کا دامن وسیع ہے اس نے سب کو اپنایا ہے اور آج بھی اردو میں لکھے گئے نغمے زیادہ مقبول ہوتے ہیں ۔ |
اسی بارے میں بالی وڈ کا اردو سے کیا رشتہ ہے؟11 February, 2006 | Debate میرا انڈیا :الٹی چال کا شہر ممبئی 09 February, 2006 | Blog انڈیا ڈائری: ’شام چھ بجے سفرمت کریں‘09 February, 2006 | Poll ’بولے تو‘ یہ حیدرآباد ہے04 February, 2006 | انڈیا | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||