|
فوج میں مسلمانوں کے سروے پر تنازعہ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی راجیندر سچّر کمیٹی سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی تعداد کا جائزہ لے رہی ہے۔ اور اسی جائزہ کے تحت اس نے فوج سے بھی پوچھا ہے کہ تینوں شاخوں میں کتنے مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد کے تعین کے اس جائزے پر حزب اختلاف کی جماعت بی جے پی نے سخت رد عمل ظاہر کیا اور اس کی مذمت کی ہے۔ حکومت کے اس قدم کے خلاف خزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنما صدر جمہوریہ سے بھی ملاقات کرنے والے ہيں۔ ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے اس جائزے کی مذمت کی ہے۔ تنظیم کے ترجمان رام مادھو نے اسے سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انکا کہنا تھا کہ ’مرکزی حکومت ابتدا سے ہی اقلیتوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ فیصلہ پورے ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‘۔ مسٹر مادھو کا کہنا تھا کہ اس طرح کے قدم سے فوج فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم ہو کر رہ جائے گی۔ اسی طرح وشو ہندو پریشد کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک خطرناک قدم ہے۔ وی ايج پی کے سیئنر رہنما گری راج کشور کا کہنا تھا کہ حکومت یہ سب مسلمانوں کے لئے کر ری ہے جن کی بقول انکے وفاداری بھی مشکوک ہے۔ سجر کمیٹی نے مسلمانوں کی تعداد کی تفصیلات مارچ میں طلب کی تھیں لیکن اس وقت فوج کے سربراہ جے جے سنگھ نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی تھی کہ اس سے فوج کو ایک غلط اشارہ ملے گا جو بنیادی طور پر ایک غیر سیاسی اور سکیولر ادارہ ہے لیکن وزیراعظم کے دفتر نے مبینہ طور پر انکے اعتراض کو مسترد کر دیا تھا۔ جنرل جے جے سنگھ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ مسلح افواج میں داخلہ خالصتاً صلاحت اور ہنر کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ اس میں یہ نہیں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کس جگہ سے آئے ہیں، آپ کی زیان کیا ہے اور آپ کا مذہب کیا ہے۔ فوج صرف یہ دیکھتی ہے کہ اس میں داخلے کے لیے ہر کسی کو مساوی موقع ملے۔ تاہم سچّر کمیٹی کا کہنا ہے کہ فوج بھی تمام دیگر سرکاری اداروں کی طرح ایک سرکاری ادارہ ہے اور اسے بھی تمام تفصیلات فراہم کرنی چاہیں۔ | اسی بارے میں مذہبی بنیاد پر کوٹہ نہیں: عدالت21 September, 2004 | انڈیا مسلم کوٹہ کیس، سماعت ملتوی27 July, 2004 | انڈیا | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||