|
بھارت-امریکہ جوہری معاہدہ اور مشکلات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
امریکہ کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان جوہری شعبے میں تاریخی معاہدہ طے ہونے میں ابھی کچھ دشورایاں پیش آ رہی ہیں تاہم انہوں نے امید ظاہر کی ہے ان دشورایاں پر قابو پالیا جائے اور اس معاہدے کو آخری شکل دے دی جائے گی۔ یہ بیان امریکی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ نکلولس برنز نے دہلی میں بھارتی وفد کے ساتھ دوروزہ مذاکرات کے بعد دیا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو امریکہ کے پرامن جوہری پروگرام تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے عالمی سطح پر جوہری توانائی کے عدم پھلاؤ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ نکولس برنز نے کہا کہ یہ ایک بڑی انوکھی صورت حال اور بھارت کی پوزیشن بھی بڑی انوکھی سی ہے اور اس طرح کے معاملات پر مذاکرات کے دوران مشکلات تو پیش آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بھارت اپنے دفاعی اور پرامن مقاصد کے جوہری پروگرام کے علیحدہ علیحدہ کرئے اور پرامن جوہری پروگرام کی تنصیابات کو بین الاقوامی انسپکٹروں کے لیے کھولے۔ نامہ نگاروں کے مطابق بھارت کے لیے اپنے دفاعی اور پرامن جوہری پروگرام کو علیحدہ علیحدہ کرنا ممکن نہ ہوگا کیوں ملکی کی بڑی بڑی جوہری تنصیبات میں بیک وقت دفاعی اور پرامن جوہری پروگرام پر کام ہورہا ہے۔ کچھ امریکی سیاست دانوں اور پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ جس نے جوہری عدم پھلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیا جوہری شعبے میں تعاون کا معاہدہ ایران جیسے ملکوں کے لیے غلط مثال بنا جائے گا۔
نکولس برنز نے جمعہ کو ایران کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس نے جوہری توانائی کے حصول کے لیے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت جس نے گزشتہ سال جوہری توانائی کے عالمی ادارے میں ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا دونوں ملکوں کو احتیاط کی تلقین کر رہا ہے۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ شیام سرن نے کہا کہ بھارت کے ایران کے ساتھ پرانے تعلقات ہیں اور بھارت خطے میں محاذ آرائی کی کوئی صورت حال دیکھنا پسند نہیں کرئے گا۔ بھارت اور امریکی حکام معاہدے پر اپنے اختلافات ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے بہت سے دور کر چکے ہیں تاکہ صدر بش کے اس سال دورۂ بھارت سے پہلے معاہدے کو آخری شکل دے دی جائے۔ جوہری شعبے میں تعاون بڑھانے کے اصولی سمجھوتے پر گزشتہ سال وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دورہ امریکہ کے دوران دستخط ہوئے تھے۔ اس سمجھوتے کے تحت امریکی کمپنیوں کو بھارت میں جوہری پلانٹ لگانے کی اجازت ہو گی اور جوہری ریکٹرز کو ایندھن فراہم کرنے کی بھی اجازت ہوگی۔ دہلی اپنی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کا بہت خواہش مند ہے۔ | اسی بارے میں ہندوستان نیوکلائی منصوبہ میں شامل06 December, 2005 | نیٹ سائنس پاک بھارت، جوہری فہرستوں کا تبادلہ01 January, 2006 | پاکستان بھارتی اداروں پر پابندیاں ختم01 September, 2005 | انڈیا ’جوہری معاہدہ برابری کی بنیاد پر‘15 December, 2005 | انڈیا ’ایران مخالف ووٹ امریکی دباؤ‘ 25 September, 2005 | انڈیا | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||